(۲)قوتِ ارادی:
آپ کبھی اپنے بچے کے پاس بیٹھ کر اس چیز کی لسٹ بنائیں کہ وہ خود سے کتنا سوچتا ہے اور کتنا کام کرتا ہے۔یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کے اندر قوتِ ارادی موجود ہے۔اسی قوت کی بدولت وہ نئے اقدامات کرکے زندگی میں آگے بڑھے گا۔
(۳)قربانی:
دیکھیں کہ آپ کابچہ قربانی کتنا دیتا ہے،بانٹتا کتنا ہے اوراپنے جیب خرچ سے کتنے لوگوں کو کھلاتا ہے؟اگر یہ اوصاف ہیں توپھر اگرچہ وہ اسکول میں نمبرکم لے لے لیکن وہ زندگی میں ترقی کرے گا کیونکہ اس کے اندر قربانی کا جذبہ ہے۔
(۴)سیکھنے کا شوق:
یہ بات معلوم کرنے کے بے شمار طریقے ہیں۔آ پ ایک انسان کو آزاد چھوڑدیں توجو وہ کرتا ہے اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس کوکس چیز کی طلب ہے۔آپ بھی اپنے بچوں کی سرگرمیوں کو نوٹ کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ ان میں کن چیزوں کے سیکھنے کا شوق ہے۔یہی شوق ہی ان کو آگے بڑھنے میں مدد دے گا۔
(۵)انسپائریشن:
سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کے بچے کے پاس کوئی انسپائریشن ہے؟ویسے تو زندگی میں کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے مگر ایک چیز میں نے ضرور دیکھی ہے کہ اگر آپ کے پاس کوئی انسپائریشن ہے تو آپ کامیاب ہوسکتے ہیں۔انسپائریشن کا مطلب ہے کہ کسی کو دیکھ کر ارادہ کرلینا کہ میں نے کچھ بننا ہے۔
بچپن کی زندگی اسپنج کی طرح ہوتی ہے جس میں وصول کرنے کی بھرپور گنجائش ہوتی ہے۔جن بچوں کو وقت پر کوئی انسپائریشن مل جائے تو وہ زندگی میں بڑا نام کماتے ہیں،جبکہ بڑی عمر کی مثال پتھرکی سی ہے۔آپ نے بہت سارے لوگوں کو دیکھا ہوگا جو یہ کہتے ہیں کہ میں فلاں مشہور شخصیت کے ساتھ اتناعرصہ رہا ہوں لیکن ان کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔وجہ یہ ہے کہ ان میں اثر لینے کی وہ صلاحیت ختم ہوچکی ہوتی ہے جو بچپن میں ہوتی ہے۔
انسپائریشن کاوقت پر ملنا بہت ضروری ہے۔اسی وجہ سے میں نے تعلیمی اداروں کوجو مشورے دئیے ہیں ان میں ایک بات یہ بھی ہے کہ ہمیں پہلی جماعت سے سولہویں تک سیرت رسول کو پڑھانا چاہیے۔اسی طرح ایڈمنسٹریشن میں حضرت عمر فاروق کی زندگی ضرور پڑھانی چاہیے۔محمد علی جناح، علامہ اقبال، حکیم سعید،خان نوری نصیر خان، گل خان نصیر، کوبھی پڑھانا چاہیے۔انہی سے بچہ انسپائریشن لے گا۔
(۴)بچہ اوریجنل (اصلی) کتنا ہے؟
ہم بچوں کو شروع ہی سے مصنوعی بنالیتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ رجحان بنتا جارہا ہے کہ بچے کو پہلے پہل انگریزی سکھائیں،اس کو آرٹیفیشل بنائیں۔وہ کوٹ ٹائی لگاتا ہے،آدھے ہاتھ سے مصافحہ کرتا ہے اور بات بھی پوری طریقے سے نہیں کرتا۔نہ اس میں خود احساس ہوتا ہے نہ اگلے سے احساس کرواتا ہے۔بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو بظاہر تو بڑے خوش لباس اور خوش گفتار ہیں مگر اندر سے کھوکھلے ہیں، نہ ان کی کوئی فکری نشوونما ہوئی ہے نہ نظریاتی، بس جس طرح حالات ہوتے ہیں اسی کے مطابق خود کو سنوارلیتے ہیں۔اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ بڑے ہوکر صرف اپنے اور اپنے بچوں کے لیے جیتے ہیں،ان کے دل میں ملک،ملت اور قوم کا احساس نہیں ہوتا۔یاد رکھیں جو انسان پل بڑھ کر صرف اپنی ذات کے قابل ہوجائے وہ ناکام ہے۔
ہاں جو اپنی کامیابی کے ساتھ معاشرے کوبھی کچھ دینے لگ جائے، وہ کامیاب ہے۔ بچوں کو جہاں اپنے اقدار دینا ضروری ہے وہیں اپنے حقیقی رشتوں کے بھی قریب رکھنا ہے۔میں والدین سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ تمام تر اختلافات کے باوجود بھی اپنے بچوں کوان کے دادا،دادی سے دور نہ کریں۔ اللہ نے جو رشتے دیے ہیں انہیں نبھائیں اور بچوں کو نبھاکر دکھائیں۔ بچوں کو اللہ نے رشتوں کی جوانرجی دی ہے وہ ان کو ضرور انجوائے کرائیں۔اگر آپ ان کو بڑوں سے دور رکھیں گے تو یہ ان کی حق تلفی ہے۔
قابلیت،اسکلز اور صلاحیتوں میں آپ کے بچے انتہائی ماڈرن اور جدت پسند ہونے چاہییں مگران کاانداز اورطرزِ زندگی اوریجنل(دیسی)ہو،ان میں نرم مزاجی ہو، وہ کہیں بھی بیٹھ کر کھاپی سکیں۔اپنے بچوں کو یہ بات ضرور سکھائیں کہ بہت ساری چیزوں کونظر اندا ز کرنا ہوتا ہے،بہت ساری چیزوں کو بھول جانا ہوتا ہے اوربہت ساری باتوں میں اگرانسان فقط خاموشی اختیار کرلے تو معاملات درست ہوجاتے ہیں او ر وہ بلاوجہ کے غموں اور تفرقات سے بچ جاتا ہے۔ والدین کا اپنے بچوں پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ ان کی بہترین تربیت کریں اور تربیت نام ہے اچھی عادات اپنا نے کا۔ہر انسان کے پاس اچھائی اوربرائی منتخب کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔اختیار کے استعمال سے رویہ بنتا ہے،رویے سے عادت اورپھر۔۔۔ عادات ہی انسان کی دین ودنیا کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرتی ہیں۔