پریل کے آغاز میں سوشل میڈیا پر ایک خبر بڑی تیزی سے گردش کررہی تھی اور ساتھ ہی ایک ویڈیو بھی شیئر کی گئی جس میں پولیس سی ایم سیکٹریٹ کے سامنے احتجاج کرنے والے ینگ ڈاکٹرز کو منتشر کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دی۔پولیس کی جانب سے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے مظاہرین کو لاک اپ کرنے سے قبل ہی سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور ان کو مارتا پیٹتا دیکھا گیا۔
کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر موجود ڈاکٹرز نے انتہائی ضروری حفاظتی آلہ جات Equipments Protective Personal(PPE) کی عدم دستیابی پر مارچ کرتے ہوئے کوئٹہ سی ایم سیکٹریٹ بلوچستان کا رخ کیا جس پر پولیس کی جانب سے ان پر لاٹھی چارج کیا گیا۔وزیر اعلیٰ بلوچستان کی یقین دہانی کے بعد پولیس اور مظاہرین کے درمیان اشتعال انگیزی ختم کی گئی۔وزیر اعلیٰ بلوچستان نے یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹرز کو کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے تمام تر ضروری آلہ جات اور PPE مہیا کی جائیں گی جس کی عدم دستیابی کی وجہ سے پیرا میڈیکل اسٹاف بھی شدید متاثر ہوا ہے۔
مذکورہ بالا واقعے نے صوبے میں نظام صحت کی خامیوں و کوتاہیوں کو بے نقاب کیا۔مجموعی طورپر پاکستان میں اکثر کسی بھی عمل کے ردعمل پر کیئے گئے اقدامات متاثر کن رہے ہیں۔بالخصوص کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر لاک ڈاؤن نے کافی حد تک اس وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پالیا ہے۔تاہم ملک میں مسلسل متعدی امراض کے پھیلاؤ میں اضافے نے ملک میں صحت کی دیکھ بھال کے نظام کی کارکردگی پر کئی سوالات کوجنم دہا ہے۔25اپریل 2019 کو لاڑکانہ سندھ کے علاقہ رتوڈیرو میں ایڈز وائرس کے پھیلاؤ نے نا صرف ملکی بلکہ انٹرنیشنل میڈیا میں ہلچل مچادی جس کے سبب عالمی ادارہ صحت اور لوکل و صوبائی انتظامیہ کی مدد سے وائرس زدہ پورے علاقے میں اسکرینگ کا عمل شروع کیا گیا۔
25 اپریل تا 28 جون 2019 تک تقریبا 30,132افراد کی اسکریننگ کی گئی جن میں 876 افراد کے ایڈز ٹیسٹ کے نتائج مثبت آئے۔اس نئی کشیدگی نے ملکی صحت کی نظام کی کارکردگی کو مزید بے نقاب کیا۔ایک ایسے وقت میں اچانک سے ملک میں ایڈز وائرس کی دوبارہ سے موجودگی کا اظہار ہوا جس وقت حکومتی ادارے دعوے کررہے تھے کہ انہوں نے ملک میں ایڈز وائرس کو مکمل طور پر قابو پالیا ہے۔
2005 میں حکومت پاکستان کی جانب سے متعددی امراض کی فوراً تشخیص کے لیئے
system warning early Disease (DEWS) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ DEWS کا قیام عمل میں لانے کے باوجود سندھ میں دوبارہ سے 2019 میں ایڈز وائرس کا پھیلاؤ، ملک میں ہیپاٹائٹس مرض کی موجودگی، HCV وائرس اور ٹی بی کے امراض کی موجودگی، ان تمام امراض کی موجودگیوں نے DEWS کی کارکردگی پر کئی سوالات پیدا کیئے ہیں۔چونکہ اب حالیہ کورونا وائرس Covid19 نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اب اس کے تناظر میں حفاظتی صحت کے اداروں کو مستقبل میں یہ ضرورت درکار ہوگی کہ بجائے ری ایکٹو اقدامات کرنے کے، وہ پرو ایکٹو اقدامات عمل میں لائیں۔
پاکستان اپنی تاریخ میں کئی مرتبہ مختلف تباہ کن آفات کی زد میں آ چکا ہے۔ان حادثات میں 2005 میں ہونے والا زلزلہ اور 11-2010 کا سیلاب انتہائی تباہ کن ثابت ہوئے۔کیا ان مذکورہ غیر اعلانیہ تباہ کن آفات و حادثات نے پاکستان کے محکمہ صحت کو اصلاح و بہتری کی جانب راغب کیا؟کیا یہ موجودہ کورونا وائرس کی وباء پاکستان کو مستقبل میں کسی بھی وباء یا آفت سے نمٹنے کے لیئے پرو ایکٹو اقدامات (ایسے اقدامات جو کہ پیشگی حادثات یا آفات میں منصوبہ بندی کے طور پر کیئے گئے ہوں) کرنے پر راغب کرے گی؟
آج تک پاکستان میں جتنے بھی اقدامات کسی بھی وباء یا آفت سے نمٹنے کے لیئے کیئے جاتے ہیں وہ سب کے سب ری ایکٹو (رد عملانہ) اقدامات ہوتے ہیں۔اگرچہ ری ایکٹو اقدامات بشمول سول سوسائٹی، غیر سرکاری نجی تنظیموں اور انٹرنیشنل کمیونٹی کی جانب سے ملنے والی امداد کسی بھی بحران سے چھٹکارا حاصل کرنے میں مددگار ہوتی ہیں مگر اس کے برعکس پروایکٹو اقدامات جوکہ قانون سازی کی صورت میں کیئے جاسکتے ہیں کسی بھی حادثے سے نمٹنے کے لیئے مزید کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔
*آفات کے بعد کے طبی چیلینجز*
5اکتوبر 2005 کو پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور آزاد جموں و کشمیر زلزلے کی شدید زد میں آئے۔ زلزلے کے جھٹکوں کی شدت 7.6 ریکارڈ کی گئی۔زلزلے کی وجہ سے 73 ہزار جانیں ضائع ہوئیں جبکہ لاکھوں افراد بے گھر ہوئے۔زلزلے میں شدید نقصانات کے سبب پاکستانی عوام نے متاثرہ لوگوں کے تعاون میں بڑی فراغ دلی کا مظاہرہ کیا۔13 اکتوبر تک پریزیڈنٹس ریلیف فنڈ کی مد میں 7.1 بلین روپے جمع کیئے گئے۔تاہم انفراسٹرکچرل تباہی و نقصانات کا دوبارہ سے ازالہ کرنا شدید مشکل تھا۔حکومت کی جانب سے بروقت اقدام پریزیڈنٹ ریلیف فنڈ کے باوجود بھی زلزلے سے متاثرہ پہاڑی علاقہ جات میں متعدد دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔
قدرتی آفات جیسا کہ زلزلہ وغیرہ کے شہریوں پر مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ان آفات سے ظاہری نقصانات و تباہی کے علاوہ صحت کے بھی کئی مسائل نمودار ہوتے ہیں۔2006 تا 2008 کے درمیان وادی کاغان میں ایک رپورٹ تیار کی گئی جس میں زلزلے کے بعد مختلف نئی بیماریوں کو پایا گیا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ زلزلے کے بعد دو سالوں تک متاثرہ علاقوں میں متعددی امراض کا پھیلاؤ رہا ہے۔ ان متعددی امراض میں سب سے زیادہ پھیلنے والی بیماریاں اپر سانس کی نالی کا انفیکشن اور خارش کی بیماریاں شامل تھیں۔اس رپورٹ نے یہ واضح کیا کہ ان آفات کے مقابلے میں کیئے جانے والے ردعملانہ(ری ایکٹو) اقدامات زلزلے کے بعد ہونے والے صحت کے مسائل کا خلاء پر نہ کرسکے اور ان صحت کے مسائل کو ایمرجنسی کی بنیاد پر حل نہ کیا جا سکا۔تاہم زلزلہ ایک مکمل تبدیلی کا باعث نا بن سکا مگر یہ نظام میں اصلاحات و تبدیلی اور نئی حکمت عملی وضع کرنے کے لیئے ایک راہ ہموار کرگیا۔
2010 میں ہونے والے شدید سیلاب کی وجہ سے 1800 لوگ موت کی گھاٹ اترے۔ 78 اضلاع کے 20 ملین لوگ متاثر ہوئے جبکہ 2 ملین گھر تباہ ہوئے۔سیلاب سے یہ توقعات ہرگز نہیں تھیں کہ اس کے بہاؤ کے ساتھ کئی مختلف امراض بھی شامل ہوں گے مگر سیلاب سے بھی کثیر تعداد میں مختلف بیماریوں کو استثناء حاصل نہیں رہا جبکہ سیلاب کے خاتمے کے ساتھ ہی متاثرہ علاقہ جات میں بے شمار وائرل بیماریاں نمودار ہوئیں۔اسی ضمن میں عالمی ادارہ صحت نے تنبیہہ کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقہ جات میں صحتی شعبہ جات کی جانب سے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیئے جارہے۔چنانچہ 17 اگست 2010 کو یونائیٹڈ نیشنز چلڈرنز فنڈ (یونیسیف) نے رپورٹ مرتب کی جس میں 3.5 ملین بچے پانی سے پیدا شدہ وائرل اور انفیکشن کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے خطرے میں بتائے گئے۔
پاکستان میں آنے والی آفات و حادثات میں سے کوئی ایک آفت بھی نظام صحت پاکستان کو اصلاح و بہتری کی جانب گامزن نہ کرسکی۔اگرچہ 2007 میں نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی(NDMA) اور 2005 میں ارتھ کویک ری کنسٹرکشن اینڈ ری ہیبٹیلیشن جیسے اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا مگر اب تک ان اداروں میں آفات سے لاحق خطرات میں کمی اور صحتی مسائل کے درمیان باہمی رابطے کا ایک خلا باقی ہے۔
*اٹھارویں ترمیم*
سال 2011 کو پاکستان میں ایک نئے سنگ میل کی بنیاد کا سال مانا گیا۔ یہ ایک مکمل پرامیدی کا سال تھا جس میں آئین کی 18ویں ترمیم کو عمل میں لاتے ہوئے صوبوں کو اقتدار مرکزی سے جدا کرکے خود مختار کیا گیا۔ قوی امیدیں تھیں کہ اس ترمیم کے زیر عمل آنے کے بعد صحت کے ان تمام بنیادی مسائل سے چھٹکارا حاصل کیا جائے گا جو صوبوں کے ضمن میں آتے ہیں۔بلاشبہ اٹھارویں ترمیم پاکستان کی تاریخ میں ایک امتیازی کامیابی تھی جس کو صحیح معنوں میں قوم کو حقیقی جمہوری ریاست کی طرف گامزن کرنے کے لیئے ایک اچھا راستہ قرار دیا گیا۔البتہ بعد ازاں مرکزی اختیارات کا خاتمہ صحت کے شعبہ جات میں اصلاح کے لیئے رکاوٹ بن گیا۔
پہلی رکاوٹ کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب اٹھارویں ترمیم کے فوراً بعد تین صوبوں نے صحت کے متعلق بلز پاس کیئے جبکہ صوبہ بلوچستان ایسا کرنے میں ناکام رہا۔ اس طرح بلوچستان کے علاوہ دیگر تمام صوبوں نے عطائی ڈاکٹروں کے خلاف کاروائی کرنے کا عزم کیا تاکہ تمام شہریوں کے لیئے صحت کے یکساں معیاری مواقع یقینی بنائے جائیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد محکمہ صحت کے اقتدار مرکزی کے خاتمے کے باوجود بھی معیاری صحتی سہولیات تک پہنچ اور منشیات کے خلاف مزاحم مائکروبیل بیماریاں حل طلب دو سنگین مسائل رہے ہیں۔
صوبائی و وفاقی سطح پر شفافیت کی کمی اور ناکارہ گورننس کے انحراف کے بعد بنیادی و ثانوی سطح پر صحت کی فراہمی مزید پیچیدہ ہوگئی۔مجموعی محکمہ صحت پانچ وزراء کی نگرانی میں رکھا گیا جو اکثر صحت کے متعلق کوئی ایک متفق فیصلہ کرنے کے لیئے آپس میں الجھتے رہتے ہیں۔حالیہ کورونا لاک ڈاؤن پر وفاقی اور سندھ حکومتوں کا آپس میں تضاد اس کی واضح مثال ہے۔ اسی طرح ایران سے آنے والے زائرین سے نمٹنے، ان کو قرنطینہ مراکز میں رکھنے اور آئسولیشن وارڈز کا بندوبست کرنے کے لیئے بلوچستان حکومت کو محدود وسائل کے ساتھ تنہا چھوڑا گیا جس کی وجہ سے صورتحال بد سے بدتر اور بعدازاں بدترین بن گئی۔
*ہیلتھ وژن25-2016
پاکستان صحت کے کچھ شعبہ جات میں بہتری حاصل کرچکا ہے۔ موت کی شرح عمر جوکہ 1990 میں 59 سال تھی اب اس میں اضافہ ہوکر 67 سال ہوگئی ہے۔اسی طرح اموات زچگی کی شرح میں بھی کمی آئی ہے۔ 07-2006 میں شرح اموات زچگی فی لاکھ ڈلیوری پر 276 تھی۔ تاہم پاکستان اب تک بیماریوں کے بھاری بوجھ میں مبتلا ہے۔ ان بیماریوں سے مقابلہ کرنے کے لیے حکومت پاکستان نے ایک ہیلتھ وژن 25-2016 کا اعلان کیا۔اس وژن میں صحت کے متعلق خطرات کے خاتمے کے لیئے مالی وسائل اور گورننس کی اصلاح کرتے ہوئے ایک وسیع پیمانے میں حکمت عملی تیار کی گئی ہے۔ جبکہ بنیادی، ثانوی و اعلیٰ سطحی ہیلتھ سروسز کے درمیان باہمی رابطے بھی قائم رکھنا ہے۔
جیسا کہ اس وقت پوری دنیا کورونا وائرس وباء کی شدید لپیٹ میں ہے اسی طرح پاکستان بھی اس وباء کے خطرناک شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔کورونا وائرس حالیہ تاریخ کی انتہائی خطرناک وباء تصور کی گئی۔اب تک کورونا وائرس کے مقابلے میں پاکستان کے اقدامات متاثرکن رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن نے تمام مقاصد کو پورا کیا اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو قابو کرچکا ہے۔ تاہم مجموعی طور پر صحت کی دیکھ بھال کا نظام ایک دائرے میں آگیا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے فعال نقطہ نظر سے ایک بڑے پیمانے پر تبدیلی آسکتی ہے؟ اگر ایسا نہیں تو مستقبل میں مزید شدید بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔