چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والے کورونا وائرس نے پوری دنیا کے تمام ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اس وقت دنیا بھر میں کورونا کے وبائی مرض سے متاثرین کی تعداد 46 لاکھ سے اوپر چلی گئی ہے اور اس مرض سے تین لاکھ 06 ہزار اموات ہو چکے ہیں جبکہ اس مرض سے بڑی تعداد میں لوگ صحتیاب بھی ہو چکے ہیں۔کورونا کے وبائی مرض سے ہمارے ملک میں کل تک38307 شہری متاثر ہوئے ہیں جس میں 822 شہری موت کا شکار ہو گئے ہیں اور بڑی تعداد میں لوگ اس مرض سے صحتیاب بھی ہو چکے ہیں۔ کورونا کے اس وبائی مرض کیلئے دنیا بھر میں جو اقدامات اٹھائے گئے جس شہر یا علاقے میں یہ مرض پایا گیا وہاں کی حکومتوں نے لاک ڈاؤن کرکے شہریوں کو گھروں تک محدود کیا اور شہریوں کو کھانے، پینے کی چیزیں بہم پہنچائی گئیں۔
حکومتوں نے ڈاکٹروں کوحفاظتی لباس اورآلات فراہم کئے، ملک بھرمیں شہریوں کو آگاہی دی کہ ہر شہری دوسرے شہری سے کم از کم چھ فٹ کا سماجی فاصلہ رکھے، ہاتھ ایک دوسرے سے نہ ملائے، بار بار 20 سیکنڈ تک صابن سے ہاتھ دھوئیں، ماسک پہنے، لاک ڈاؤن کے دوران گھروں میں رہے، سیاسی، مذہبی، سماجی اور دیگر اجتماعات میں جانے سے گریز کریں۔مرض کی علامات معلوم ہونے پر شہری ان ہسپتالوں میں جائیں جہاں ٹیسٹنگ کا بندوبست ہو اور ٹیسٹنگ مثبت آنے کے بعد حکومت کے زیر استعمال قرنطینہ سنٹروں میں داخل ہو جائے یا گھروں میں حکومت کی مرضی سے آئسولیشن میں چلے جائیں۔ جب تک رزلٹ منفی میں نہ آئے تو میل جول سے دور رہیں۔ پوری دنیا میں وائرس کیلئے ویکسین اور دواؤں کی تیاری کیلئے بھاگ دوڑ شروع ہو چکی ہیں۔
کورونا وائرس سے متعلق پوری دنیا میں وائرس چمگادڑ کی وجہ سے پھیلنے یا لیبارٹری میں تیار ہونے اور پھیلنے سے متعلق مختلف عالمی لیڈروں اور لوگوں کی رائے میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے عام لوگوں تک پہنچ رہی ہے۔ دنیا کے ان حالات پر نظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے پہلے دن سے لاک ڈاؤن سے متعلق نیم دلانا پالیسی اختیار کی ہے۔وزیر اعظم کی پالیسی کے برعکس وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور اس کی حکومت نے صوبائی سطح پر لاک ڈاؤن کو ضروری قرار دیتے ہوئے سندھ سے لاک ڈاؤن کا آغاز کیا اور بعد ازاں پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں لاک ڈاؤن کے فیصلے کئے گئے۔ فوج کے تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے سربراہ نے بھی لاک ڈاؤن سے متعلق بیان جاری کرکے پورے ملک میں یکساں طور پر لاک ڈاؤن پالیسی اپنانے میں کردار ادا کیا۔
وزیر اعظم نہ چاہتے ہوئے بھی لاک ڈاؤن پالیسی کا حصہ بنے اور ان کا اپنا نقطہ نظرتھا کہ لاک ڈاؤن سے دہاڑی دا ر مزدوروں کو فاقہ کشی اور ملک کی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ان کا یہ بیانیہ برقرار رہا اور 09 مئی کو وفاقی حکومت اور صوبوں کی حکومتوں کی مشترکہ پالیسی کے مطابق کنسٹرکشن کے شعبے سمیت بہت سے شعبہ جات میں لاک ڈاؤن نرم کیا گیا اور آہستہ آہستہ تجارتی مرکز، پلازے، دوکانیں کھلنی شروع ہوئی اور کاروبار زندگی میں روز بروز اضافہ ہونے لگا ہے۔ اب گزشتہ دن صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کی طرف سے ایک مذہبی جماعت کے زیر اہتمام مذہبی تقریب اور جلوس کی اجازت کے بعد تمام فرقوں کے مذہبی علماء بھی میدان میں نکل آئے ہیں اور حکومت کی لاک ڈاؤن پالیسی کو یکسر مسترد کر دیا ہے اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ حکومت کی سماجی فاصلے کی پالیسی اس وقت ہوا میں اڑ چکی ہے۔
عوام نے پلازے، دوکانیں، اور تجارتی مراکز کھول کر کاروبار شروع کر دیئے ہیں، دوکانیں، تجارت، کنسٹرکشن کا کاروبار، زراعت، کارخانوں، صنعتوں میں کاروبار زندگی 50% سے زیادہ معمول پر آنے کے بعد کاروبار میں مزید تیزی کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ اپوزیشن جماعتوں کی ریکوزیشن پر بلائے جانے والے قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاسوں میں حکومت اور اپوزیشن کی ایک دوسرے پر تنقید کے علاوہ کوئی ٹھوس پالیسی منظر عام پر نہیں آسکی ہے بلکہ قوم کے کروڑوں روپے ان اجلاسوں پر خرچ ہوئے اور نتیجہ صفر ہی نکلا۔ حکومتی اتحادی پارٹیاں اور اپوزیشن کی تمام پارٹیوں کو عام عوام کی کوئی فکر نہیں۔
عوام کا اعتماد اتنا مجروع ہو چکا ہے کہ وہ کورونا کا مریض ہونے کے بعد ہسپتال جانے سے کتراتے ہیں اور انھیں ڈر لگتا ہے کہ وہ ہسپتال میں مارابھی جاسکتا ہے اس لئے وہ گھر پر رہ کر مرنا پسند کرتا ہے اس بد اعتمادی کو بھی دور نہیں کیا گیا ہے۔ کاروبار بند ہونے سے سرمایہ داروں کی آمدنی میں کمی آرہی تھی۔ اس لئے سرمایہ داروں نے حکومت سے سبسڈیاں بھی لی، مراعات بھی لئے اور اب کام شروع ہونے کے بعد یہ سرمایہ دار اشرافیہ اور حکمران طبقہ اپنے اپنے محلوں اور بنگلوں میں ہر طرح کے حفاظتی آلات سے لیس ہو کر رہیں گے اور کام کرنے والے غرباء اور عام لوگوں کو پیغام دے دیا گیا ہے کہ وہ خود کورونا کے وبائی مرض سے بچائیں اور دو وقت کی روٹی کیلئے اپنا کام جاری رکھے۔ اب بیماری سے اگر کوئی عام شہری مرتا ہے۔
تو وہ اموات کی تعداد میں اضافہ کرے گا اور اس طرح بین الاقوامی دنیا سے ملک کے قرضے معاف ہونے، موخر ہونے اور ملک کو امداد بھی مل سکے گی۔ آئین میں شہریوں کے جان کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری قرار دی گئی ہے لیکن حکومت شہریوں کے جان کی حفاظت میں مکمل طورپر ناکام ہو چکی ہے۔ حکومت نے 12 ہزار روپے فی خاندان غریبوں کو دینے کا اعلان کیا تھا لیکن حکومت کے پاس غریبوں اور دہاڑی دار مزدوروں کا ڈیٹا موجود نہیں ہے اس لئے ہمیں نظر آنے والے غریب آج بھی حکومت کے 12 ہزار روپے کے منتظر ہیں اور انھیں کوئی بھی امداد نہیں ملی ہے۔ کورونا وائرس سے بچاؤ اور شہریوں کو فاقہ کشی سے بچانے کیلئے حکومت نے سرکاری مشینری، فوج، پولیس اور این جی اوز کی بجائے امدادی رقوم کی تقسیم اور مدد کرنے کیلئے علیحدہ سے ایک ٹائیگر فورس قائم کر دیا ہے۔
لیکن اداروں، این جی اوز اور ٹائیگر فورس کی موجودگی کے باوجود آج بھی مزدور، دہاڑی دار مزدور، کسان، بے روزگار نوجوان فاقہ کشی کا شکار حکومتی امداد کے منتظر ہیں لیکن امداد کا زیادہ ترحصہ سیاسی پارٹیوں کے ورکروں کو مل چکا ہے۔ وزیر اعظم کے ڈیجیٹل پروگرام کی چیئرپرسن ثانیہ نشتر نے اعلان کیا ہے کہ جو مزدور ملازمتوں سے برخاست ہوئے ہیں وہ اگر سر ٹیفکیٹ حکومت کے پاس جمع کرائے تو انھیں بھی حکومتی امداد مل سکتی ہیں لیکن اس معصوم خاتون کو یہ معلوم نہیں کہ اس ملک میں سرمایہ دار، صنعتکار اور مالکان مزدوروں کو تعیناتی اور برخاستگی کے خطوط نہیں دیئے جاتے اور اس قانون کا نفاذ کرنے والے محکمہ محنت کے ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہوئے مالکان کے ساتھ مل کر مزدوروں کا استحصال کر رہے ہیں۔
حکومتی اعلانات، پالیسیوں اور لاک ڈاؤن کی بتدریج خاتمے کے بعد اب تمام غریب اور لاچار شہری حالات کے رحم و کرم پر کورونا کی وبا سے اپنے آپ کو بچائیں اور کھانے کیلئے مزدوری کرکے دو وقت کی روٹی کمائیں، ریاست میں حکمران طبقہ وسائل پر قابض اور لوٹ مار میں ملوث ہونے کے باوجود ان کی پکڑ موجودہ بوسیدہ نظام میں نہیں ہے اور اس بوسیدہ نظام کو بدلنے کیلئے عوامی طاقت اور اتحاد کے ساتھ عدلیہ کا کردار اہم ہے عدلیہ عام شہریوں، مظلوموں اور غریب عوام کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کیلئے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔