کون اس دیس میں دے گا ہمیں انصاف کی بھیک
جس میں خونخوار درندوں کی شہنشاہی ہے
جس میں غلے کے نگہباں ہیں وہ گیدڑ جن سے
قحط و افلاس کے بھوتوں نے اماں چاہی ہے
جب انصاف دینے والی عمارتیں جاگیر داروں کی کوٹھیاں بننے لگیں تو اس ملک میں ترقی نہیں، تباہی ڈیرے ڈالتی ہے۔اس دھرتی سندھ کی جب عزتیں یعنی مائیں بہنیں انصاف کیلئے در بدر ہوں اور قاضی کے منہ پر تالا ہو تو وہاں باغی ہی پیدا ہوں گے۔جب ریاست اپنی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کو انصاف نہ دے سکے تو ایسی ریاست کو ریاست مدینہ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے۔
جب اس دھرتی کی بیٹی ننگے پاؤں انصاف کے حصول کیلئے عدالتوں کے چکر کاٹے، انصاف کیلئے دھرتی کی بیٹی قاضی کی گاڑی کے سامنے جان ہتھیلی پر لے کر آئے،اس دھرتی کی بیٹی انصاف کی فراہمی کیلئے عدالتوں میں لالٹین لے کر جائے اور ان بے ضمیر مردہ لوگوں کو جھنجھوڑے
پھر بھی ہماری بے حسی،بے ضمیری نہ ٹوٹے تو میں یہ کیسے تسلیم کر سکتا ہوں کہ یہ ریاست، ریاست مدینہ بن سکتی ہے؟
ام رباب کا قصور یہ ہے کہ وہ سندھ کی بیٹی ہے۔ اس معصوم بہن کے دادا، والد اور چچا کو سرعام دن دھاڑے بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا اس دن سے یہ معصوم انصاف کیلئے در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہے اور ہمارے ادارے اسے انصاف دینے کے بجائے ان قاتل درندوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور اس بہادر بیٹی کو چپ کرانے کی کوشش کی جارہی ہے ام رباب نے اپنی تعلیم،سماجی زندگی کی پرواہ کئے بغیر ان ظالموں کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی ہے۔
اب دیکھا یہ جائے گا کہ اس بیٹی کو کیا پاکستان کی عدالتیں انصاف دلا پائیں گی اور کیا ہمارے ادارے یہ ثابت کر پائیں گے کہ سندھ اور بلوچستان بھی پنجاب کی طرح پاکستان کا حصہ ہیں اور ان کے باشندے پاکستانی ہیں۔ اب اگر ام رباب اور ایسی ہزاروں ام رباب اور ارشاد رانجھانی جیسے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مظلوموں کو انصاف فراہم نہیں کیا جاتا تو ان عدالتوں سے بھروسہ اٹھ جائے گا۔