حسب معمول اپنی زندگی سے جڑے رنگ برنگے کپڑے کے ایک ٹکڑے کو اپنی گود میں پکڑ کر گھر کے ایک کونے میں بیٹھ گئی، اپنی آنکھیں مضبوطی سے جمائے مشکل سے رنگ برنگے دھاگوں کو سوئی میں ڈال رہی تھی، وہ کپڑے کے ٹکڑے پر کڑھائی کر کے نقش بنا رہی تھی بالکل اسی طرح کے نقش جو کہ اس کے ذہن کے میں کافی عرصے سے بنتے آ رہے تھے یہ نقوش اس کے زندگی پر پڑنے والے نقوش سے کچھ مختلف نہ تھے کڑھائی کے اس کام میں اسے کافی مشکل کا سامنا اس وقت کرنا پڑتا کہ جب وہ کپڑے کے باریک تاروں کو گن گن کر باریک بینی سے حساب لگا کر کڑھائی کرتی۔
زرینہ بلوچ کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ کی رہائشی ہے وہ گزشتہ پانچ سالوں سے سلائی کڑھائی کا کام کرتی آرہی ہے۔زرینہ بلوچ نے بتایا کہ” کڑھائی کے کام سے میری آنکھیں اور صحت کافی متاثر ہو رہی ہیں جس سے میری آنکھیں رفتہ رفتہ کمزور ہوتی چلی جا رہی ہیں، میں مختلف ایگزیبیوڑنز میں اسٹال لگاکر اپنا کڑھائی کا کام فروخت کرتی ہوں ” زرینہ بلوچ نے مزید بتایا کہ انکا کام پانچ ہزار سے لیکر پچیس ہزار تک فروخت ہوتا پر یہ کام کی نوعیت پر منحصر ہے اگر ہلکی کڑھائی کرنی ہو تو تو کم معاوضہ جبکہ بھاری کڑھائی کا معاوضہ اسی حساب سے زیادہ ملتا ہے۔
زرینہ کو ایک ہلکے کڑھائی کے کام میں تین سے چھ ماہ کا عرصہ لگ ہی جاتا ہے جبکہ اسے بھاری کام کرنے پر اس سے کئی زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ” اگر میں خود کسی کے لئے کام کروں تو اسکی مناسب قیمت مل ہی جاتی ہے اگر وہی کام بازار جاکر دکاندار پہ فروخت کرتی ہوں تو اسکا معاوضہ بہت ہی کم ملتا ہے جبکہ دکانداراسی قمیض قیمت پر فروخت کرتا ہے”نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کشیدہ کاری کے کام سے منسلک خاتون نے بتایا کہ ” موسم مورغ پانچ جو کہ بلوچی کشیدہ کاری کی ایک قسم ہے اسے میں 15000 روپے میں بناتی ہوں جبکہ موسم گل خان گل 35000 میں، ساتھ رنگ کہوڑوں 20000 اور لیلی موسم 50000 میں بناتی ہوں “انہوں نے مزید بتایا کہ”مجھے ایک کو بنانے میں سال تک کا عرصہ لگ جاتا ہے۔
جبکہ ایک سال میں اگر پچاس ہزار روپے کی قمیض بنا بھی لی جائے تو سال کے اندر یہ رقم بہت کم ہوتی ہے جبکہ دکاندار کو اسی ضمن میں کافی فائدہ ہوتا ہے اکثر دیہات میں کشیدہ کاری کرنے والی خواتین کو مارکیٹ تک رسائی حاصل نہیں ہوتی جبکہ خواتین کی کشیدہ کاری کے کام کو بازار تک رسائی مڈل مین ممکن بناتے ہیں جو کہ اپنے لئے کم از کم 25 فیصد منافع رکھتے ہیں “جب آن لائن اور دیگر ذرائع سے کوئٹہ کے بازار میں فروخت ہونے والے کشیدہ کاری کئے ہوئے کپڑوں کی قیمتیں معلوم کی گئیں تو قریب 20 سے 30 فیصد تک دکانداروں کو فی قمیض فائدہ ہوتا ہے۔
تاہم اس حوالے سے قیمتوں کی درست اعداد شمار پیش کرنا مشکل ہے کیونکہ مختلف دکانداروں کی جانب سے کشیدہ کاری کئے ہوئے کپڑوں کو مختلف قیمتوں پر فروخت کیا جاتا ہے۔ صوبہ بلوچستان میں دو بڑی قومیں پشتون اور بلوچ آباد ہیں جنکی اکثر خواتین گھروں میں کپڑوں، چادروں اور دیگر اشیاء پر کڑھائی کا کام کرتی ہیں جو کہ پشتون اور ثقافت کی عکاس ہے اس کے علاوہ صوبے کے لوگ گھروں میں قالین، مٹی کے برتن پھلوں کو خشک کرکے خشک میوہ جات بنانے کا کام بھی کرتے ہیں۔2017ء میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق صوبہ بلوچستان کی کل آبادی 12,344,299 افراد پر مشتمل ہے۔
جس میں سے خواتین کی تعداد 5,860,646 ہے جو کہ کل آبادی کا 47.47 فیصد بنتی ہے۔خواتین کی حقوق اور گھریلو صنعت پر کام کرنے والی سماجی کارکن صائمہ جاوید گھریلو صنعت کی تعریف کچھ یوں کرتی ہے کہ اپنی کسی بھی پسندیدہ جگہ پر بیٹھ کر کام کرنا یعنی اپنے گھر سے کام کرکے بازار میں فروخت کرناگھریلوں صنعت کہلاتا ہے۔صائمہ جاوید کے مطابق بلوچستان میں تاحال گھریلو صنعت کے حوالے سے کوئی پالیسی وضع نہیں کی جاسکی اور نہ ہی کوئی قانون بنایا جاسکا ہے جسکی وجہ سے گھریلوں صنعت سے وابستہ افراد کا استحصال ہو رہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ خواتین کو مارکیٹ تک براہ راست رسائی حاصل نہیں ہوتی جسکی وجہ سے اکثر کڑھائی کے کام سے منسلک خواتین مڈل مین کے ذریعہ سے اپنے کام کو فروخت کرتی ہیں۔
جسکی وجہ سے محنت کرنے والی خواتین تک انکا جائز حق نہیں پہنچ پاتا اور اکثرگھریلوں صنعت سے وابسطہ دیگر ٹریڈ کے افراد کو بھی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔صائمہ جاوید کے مطابق “کڑھائی کی ایک قمیض بنانے میں عام طور پر پانچ یا چھ ماہ تک کا عرصہ لگ جاتا ہے جبکہ اگر حاصل منافع کو قمیض بنانے کے لئے درکار وقت پر تقسیم کیا جائے تو یہ قیمت بہت ہی کم بنتی ہے کڑھائی کے کام میں وقت زیادہ درکار ہوتا ہے جبکہ اسکا معاوضہ وقت اور کی جانے والی محنت کی نسبت بہت کم ہوتا ہے” صائمہ جاوید کہتی ہیں کہ بلوچستان کے ثقافتی کشیدہ کاری کئے ہوئے کپڑوں کی مانگ ملک کے دیگر صوبوں میں بہت ہی کم ہے۔
بلوچستان کی اکثر خواتین مارکیٹ ویلیو کو نہیں سمجھتی اگر اس کام سے منسلک خواتین کڑھائی کا ہلکا پھلکا کام کرتوں اور دیگر اشیاء پر کریں تو کم وقت میں زیادہ معاوضہ کما سکتی ہیں اور اس طرح اپنے کام کو مقامی سطح سے بڑھا کر قومی اور بین الاقوامی مارکیٹ تک پھیلا سکتی ہیں۔طلعت جیہان ں سنہء 2015سے سکاوٹ سکلز لرننگ، ڈیولپنگ کے نام سے ادارہ چلاتی آرہی ہے جس میں وہ بچوں اور بچیوں کو سلائی، کڑھائی، بیوٹیشن اور فیشن ڈیزائننگ کا کام سکھائے جاتے ہیں جس کا باقاعدہ ٹریڈ ٹیسٹنگ بورڈ سے ٹیسٹ لیا جاتا ہے اور کامیاب ہونے والے افراد کو انٹرشپ کے مواقع بھی فراہم کئے جاتے ہیں۔
جبکہ اکثر ہونہار طلباء کو اسی ادارے میں بطور انسٹرکٹررکھا جاتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس ادارے کا قیام اقوام متحدہ کے زیلی ادارے یونیسیف کی مدد سے عمل میں آیا اور ابتک وہ 1400 افراد کو ہنر مند بنا چکے ہیں۔طلعت کے مطابق انکے ادارے میں ٹرینر میں اکثر گھریلوں صنعت سے وابسطہ افراد شامل ہیں تاہم صوبے میں اس وقت پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے اس صنعت سے وابسطہ افراد کی براہ راست مارکیٹ تک رسائی ممکن نہیں۔زولیخہ عزیز مندوخیل چیمبر آف کامرس اور پاکستان تحریک انصاف کی وومن ونگ کوئٹہ کی صدر بھی ہے انہوں نے بتایا کہ ” میں بطور کاروباری شخصیت کے کشیدہ کاری کے کام کو اہم سمجھتی کیونکہ یہ کام کسی بھی خواتین کو بااختیار بنانے میں اہم کردار ادا کرتا کیونکہ کشیدہ کاری کے کام کی اہمیت نہ صرف بلوچستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ہے۔
لیکن صوبے کی اکثر خواتین کو براہ راست مارکیٹ تک رسائی حاصل نہیں اور اکثر انکی کشیدہ کاری کے کام کو مڈل مین بازار میں جاکر فروخت کررتے ہیں “زولیخہ عزیز مندوخیل سمجھتی ہیں کہ کشیدہ کاری کے کام سے وابسطہ خواتین کو مارکیٹ ویلیو کے بارے میں علم ہی نہیں تاہم حکومت بلوچستان کو چاہئے و قتاً فوقتاً ایکسپو کا انعقاد کرے تاکہ کشیدہ کاری کے کام سے وابسطہ خواتین کو براہراست رسائی ممکن ہوسکے تاکہ وہ اپنا کام دنیا بھر کو دکھاسکیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ بلوچستان حکومت تاحال گھریلو صنعت کے حوالے سے کوئی جامع پالیس نہیں بنا سکی تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پالیسی بنانے کے ساتھ ساتھ ضلع کی سطح پر ووکیشنل سینٹرز کا قیام عمل میں لائے تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین کشیدہ کاری کے ہنر کو سیکھ کر باعزت طریقے سے اپنے گھر کو چلا سکیں۔
کرائے تاکہ خواتین باعزت روزگار کما کر اپنے گھر کو چلانے کے قابل ہو سکیں جس سے صوبے کی معیشت پر مثبت اثر پڑے گا۔معروف وکیل و سماجی کارکن قمر صابر گھریلوں صنعت کے حوالے سے صوبے میں تاحال پالیسی اور قانون سازی کی منتظر ہیں انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں جامع پالیسی اور قانون نہ ہونے کی وجہ سے گھریلوں صنعت سے منسلک افراد معاشی استحصال کا شکار ہیں جس میں خصوصی طور پر خواتین شامل ہیں۔انہوں بتایا کہ ” 1973 کے آئین کے آرٹیکل 18 کے تحت، پاکستان کے ہر شہری کو جائز پیشہ اور کاروبار اختیا کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔
مزید کہ کسی بھی مزدور یا کسی ادارے میں کام کرنے والے شخص کی کم از کم ماہانہ تنخواہ 17500 مقرر کی گئی تاہم صوبائی حکومت کو چاہئے کہ گھریلو صنعت سے وابسطہ افراد کو با اختیا بنانے اور انکا پورا حق دلوانے کے لئے پالیسی وضع کرتے ہوئے قانون سازی کرے جبکہ اقوام متحدہ ادارہ برائے محنت کا کنونشن سی117 بھی مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے بات کرتا ہے” بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما غلام نبی مری کہتے ہے کہ بلوچستان میں شرح خواندگی کم ہونے کے ساتھ ساتھ صوبے میں صنعت نہ ہونے کے باعث لوگوں کو بے روزگاری اور دیگر سماجی مسائل کا سامنا ہے۔
کوئی بھی معاشرہ خواتین کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔حکومت کو چاہئے کہ وہ برابری کی بنیاد پر خواتین کو مواقع فراہم کرے اور کشیدہ کاری سے منسلک خواتین اور گھریلو صنعت سے وابسطہ افراد کے حوالے سے پالیسی وضع کرکے انہیں باعزت روزگار کے مواقع فراہم کرے تاکہ صوبے میں بے روزگاری کی شرح کم ہو سکے گی۔پاکستان ورکرز فیڈریشن کے بلوچستان میں جنرل سیکرٹری پیر محمد کاکڑ گھریلو صنعت سے وابسطہ افراد کو ورکرر نہ ماننے کی وجہ صوبے میں پالیسی اور قانون سازی کا نہ ہونا قرار دیتے ہیں جس سے ورکرز کا سب بڑا نقصان (ای او بی آئی) اولڈ ایج بینیفٹ کی صورت میں ہوتا اگر گھریلو صنعت سے وابسطہ افراد کو قانون سازی کے تحت ورکرز تسلیم کر لیا جائے تو انہیں (ای او بی آئی) کے تحت پنشن کی طرز پر رقم مل سکے گی اسی وجہ سے گھریلوں صنعت سے وابسطہ افراد کو صحت کی سہولیات بھی میسر نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں نہ صرف گھریلو صنعت بلکہ ڈومیسٹک ورکرز کے حوالے سے بھی تاحال کوئی پالیس وضع نہیں کی جاسکی جسکی وجہ سے ایک ورکر کے ڈیوٹی کے اوقات کار کا تعین ہی نہیں ہوسکا۔وہ افراد جو لوگوں کے گھروں میں بطور ڑرائیور، بطور باورچی یا پھر کوئی اور کام کریں ڈومیسٹک ورکرز کہلاتے ہیں۔پیر محمد کاکڑ کے مطابق ” ہم نے پاکستان ورکرز فیڈریشن نے گھریلو صنعت سے وابسطہ افراد کے لئے ایک الائنس بنایا ہے اور ہم بلوچستان حکومت کو باور کراچکے ہیں کہ گھریلو صنعت کے سلسلے میں قانون سازی کریں تاہم اس حوالے سے پیش رفت جاری ہے”ڈائریکٹر جنرل لیبر اینڈ مین پاور سعید احمد سرپرہ نے بتایا کہ گھریلوں صنعت کے سلسلے میں پالیس اور قانون سازی کے حوالے سے حکومت بلوچستان نے سیکرٹری لیبر کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے۔
جس میں اراکین اسمبلی،لیبر ڈیپارٹمنٹ کے نمائندوں سمیت این جی اوز کے نمائندے بھی شامل ہیں جنہوں نے سفارشات مرتب کرتے ہوئے قانون سازی اور پالیسی کے حوالے سے مسودے پر کام مکمل کیا جا چکا ہے۔انہوں نے مذید بتایا کہ ” ہم نے پہلے پالیسی بنائی جسے لیگل ڈیپارٹمنٹ بھیج رہے ہیں اس کے بعد پالیسی کا مسودہ کابینہ اور پھر اسمبلی سے منظوری کے لئے بھیجا جائے گا بعد ازاں گھریلوں صنعت کے حوالے سے قانون سازی بھی عمل میں لائی جائے گی۔
انہوں نے مذید بتایا کہ لیبر ڈیپارٹمنٹ عالمی ادارہ برائے محنت اور عالمی ادرہ برائے خواتین کی مدد سے ریپڈ اسسمنٹ سروے کرنے جا رہے ہیں جس سے گھریلوں صنعت سے وابسطہ افراد کا ڈیٹا اکھٹا کیا جائے گا جس کے بعد گھریلو صنعت سے وابسطہ تمام افراد کو سوشل سیکیورٹی میں رجسٹر کیا جائے گا سروے کے بعد مڈل مین کے کردار کو کم یا ختم کرنے کے لئے ای کامرس کے ذریعہ گھریلو صنعت سے وابسطہ افراد کی مارکیٹ تک براہ راست رسائی کو ممکن بنایا جائے گا۔