بلوچستان ایک ایساخطہ ہے جس کو قدرت نے اپنی تمام نعمتوں سے نوازا ہے۔ اس دھرتی کو خالق کائنات نے سونے چاندی سے بھردیا ہے۔ ان کی بلند پہاڑوں سے لیکر ساحل تک،صحراؤں سے لیکر وادیوں تک سب میں قدرت نے اپنے خزانے بھردئیے ہیں۔بلوچستان کے پہاڑوں، وادیوں اور صحراؤں سے نکلنے والاہر ذرہ، ہر پتھر، ہر پھل اپنی ایک الگ قیمت رکھتا ہے۔ سندک، کرومائیٹ، ریکوڈیک، سنگ مرمر اور دیگر قیمتی ماربل پتھریں بھی پورے پاکستان میں اس ذرخیز خطہ کی مرہون منت ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس دھرتی کے اپنے باسی خود فاقہ کشی پر مجبور ہیں بلوچستان کے لوگ اپنے ساحل وسائل کے مالک بھی نہیں ہیں۔ پورے ملک کو تمام قدرتی وسائل ایکسپورٹ کرنے والے صوبے کے لوگ خود پانی اور ایک سڑک کیلیے ترس رہے ہیں۔
بلوچستان کے عوام ہروقت کسی نہ کسی مصیبت سے لڑرہے ہوتے ہیں، چاہے وہ قدرتی آفت کی صورت میں ہو یا خود اپنے وطن میں رائج ظالم نظام اور حکمرانوں کی طرف سے ہو۔ بلوچستان واحد خطہ ہے جس میں تمام قدرتی وسائل و ذخائر پائے جاتے ہیں۔ گرم اور گہرا ساحل اور معدنی دولت، تیل،سونے چاندی سے مالامال دھرتی ہے۔ بلوچستان میں بسنے والے لوگ بڑی مشکل زندگی بسر کرتے چلے آرہے ہیں َکئی دہائیوں سے بدقسمتی سے پوری دنیا کو اپنے خزانوں سے مالامال کرنے والے صوبے کے لوگ خود ایک وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ بے روزگاری اور ناخواندگی کی شرح98فیصد سے اوپر ہے۔ نام نہاد عوامی رہنماؤں کو عوام کی حالتِ زار نظر نہیں آتی۔
کرونا وائرس کے سبب پوری دنیا میں معیشت سست رفتاری کا شکار ہے، ہرطرف خوف وہراس پھیلی ہوئی ہے۔ بلوچستان کے لوگ بھی اس آفت سے بچاؤ کے پیش نظر لاک ڈاؤن کی وجہ سے بُری طرح سے متاثر ہوئے ہیں لیکن بلوچستان کے عوام کروناوائرس سے کہیں زیادہ خطرناک ایک اور وائرس سے اپنے کئی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں وہ “چمن ٹوکراچی شاہرا ” ہے۔یہ قومی شاہرا چمن ٹو کراچی ایک خونی شاہراہ بن چکی ہے۔ اس روٹ پر سفر کرنا موت کی پشت پر سواری کے مترادف ہے۔یہ خونی شاہرا کئی روشن چراغوں کو گل کرچکا ہے۔ سنگل ہونے کی وجہ سے یہ موت کی علامت بن چکی ہے۔
بلوچستان کو “کے پی کے”اورسندھ سے ملانے والا یہ واحد تجارتی و صنعتی روڈ ہے۔ ماہ اپریل میں لاک ڈاؤن کے دوران بلوچستان کے خونی شاہراہوں پر موت کا رقص جاری رہا۔ ٹوٹل,123, حادثات پیش آئے جن میں 101 لوگ شہید اور,315,لوگ زخمی ہوئے!
ضلع خضدار,42, حادثات میں,115, زخمی اور,43, شہید ہوئے
ضلع کوئٹہ9,حادثات 7,زخمی, 6,شہید ہوئے۔
ضلع لسبیلہ,14, حادثات میں,31, زخمی اور،9, افراد شہید ہوئے
مستونگ,18, حادثات میں,51,زخمی,8، لوگ شہید ہوئے
ضلع قلات 10 حادثات 21 زخمی 9شہید ہوئے
چمن 9حادثات 19 زخمی 9 لوگ شہید ہوئے
اندرون بلوچستان 21 روڈ حادثات میں 71 زخمی 17شہید ہوئے جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔ بدقسمتی سے ہمارے منتخب نمائندے اور حکومت وقت نے اس سنگین بنیادی مسئلے سے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے۔ روڈ ایکسیڈنٹ میں شہید ہونے والوں کی تعداد کرونا وائرس سے مرنے والوں سے دوگنا ہے۔ اس روٹ پر سفر کیلیے نکلنا موت سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ یہ قومی شاہرا کئی لوگوں سے ان کے پیارے چھین کر انکے سینوں کو دکھ اور درد سے چھلنی کردیا ہے۔ بلوچستان کے کئی نسلوں کو اجاڑ دیا ہے بلوچستان کے کئی انمول موتیوں کو چھین لیا ہے۔ میں یہاں چند شخصیات کاذکر کرتا ہوں جو اس خونی شاہرانے ہم سے جدا کردئیے۔ نیشنل پارٹی کے رہنماء ڈاکٹر یاسین بلوچ،کمشنر مکران ڈویژن کے طارق زہری، براہوئی زبان کے مشہور و معروف کامیڈین درجان پرکانی، ڈاکٹر نعمان بلوچ، میر زبیر زرکزئی صاحب، اور مینگل ہوتکانی قبیلہ کے سربراہ حاجی محمد حیات مینگل۔