یہاں تک کہ سرکار دوعالم نے اس بچے کو اپنے ساتھ ممبر پر بٹھایا اور فرمایا جو شخص یتیم کی کفالت کرے گااور محبت سے اس کے سر پر ہاتھ پیرے گا،اس کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں اتنی ہی نیکیاں لکھ دے گا۔ہمیں بھی نبی کریم کی پیروی کرتے ہوئے عید کے موقع پر اپنے ارد گرد بسنے والے غریب،یتیم بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنا چاہئے تاکہ ان کی بھی عید ہوجائے اور ہمیں کل روزقیامت آپکے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔عید سب کے لئے خوشیوں کا پیغام لاتی ہے لیکن پاکستان کے غریب طبقے کے لئے ”خودکشیوں ”کا پیغام ہوتا ہے۔مہنگائی نے غریبوں کے علاوہ سفید پوش یعنی مڈل کلاس طبقے کو بھی متاثر کردیا ہے اب عید کی شاپنگ متوسط طبقے کی دسترس سے بھی باہر ہوگئی ہے تو وہاں نچلے طبقے کے غریب کی حالت کیسی ہوگی۔
ایگزیکٹو فیملیز تو محلات میں عید کی خوشیاں مناتے ہیں اور ساتھ میں عید کی عبادت کو غیر شرعی افعال کے ذریعے ضائع کردیتے ہیں اور لاکھوں روپے ضائع کرتے ہیں اگر ان پیسوں کو معاشرے میں استعمال کرتے تو غریبوں کے بچوں کو خوشیاں نصیب ہوتیں۔عید الفطر جہاں خوشیوں کا پیغام لاتی ہے اس کے ساتھ عید کے اصل مقاصد معاشرتی ہم آہنگی،رواداری اور غریب،امیر کے فرق کو ختم کرناہے لیکن ہم ان مقاصد کو بھول جاتے ہیں۔اس وقت وطن عزیز کی حالت ابتر ہوچکی ہے اور غریب،غریب تر ہوتاجارہاہے۔عید ہمارے سماجی فرق کو ختم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ غریب کے بچوں کابھی خاص خیال رکھنا ہوگا۔جہاں آپ اپنے پانچ بچوں کے لئے نئے سوٹ،شوز خریدتے ہیں۔
اس کے ساتھ ایک غریب بچے کے لئے بھی وہی چیزیں خریدکے لیجائیں جس سے آپ کے بچوں کی بھی خوشی دوبالا ہوگی اور غریبوں کی دعاؤں کے بھی مستحق ہونگے۔عید کی خوشی وہ اچھی لگتی ہے جب معاشرے میں سب انسان برابری کی بنیادپرخوشیاں منا رہے ہوں لیکن صرف اپنے بچوں کے لئے ہزاروں لاکھوں کی شاپنگ ہوجاتی ہے عید کے دن کافی ایسے غریب بچے نظر آرہے ہوتے ہیں جن کے پٹھے پرانے کپڑے ان کی غریبی کی داستان بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ایک روایت سنیے حضرت وہب بن منبہ فرماتے ہیں کہ جب بھی عید آتی ہے تو شیطان چلا چلا کر روتا ہے اس کی بد حواسی اور آہ وزاری دیکھ دیگر شیطان اس کے ارد گرد جمع ہوکر اس کے رونے کا سبب پوچھتے ہیں تو وہ جواب دیتا ہے کہ افسوس آج کے دن اللہ نے امت محمدیہ کو بخش دیاہے۔ لہٰذا تم انہیں لغویات اور خرافات میں مشغول کردو۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ عید الفطرجوحقیقت میں انعام الٰہی ہے اس پر ہم کو شکریہ ادا کرنا چاہیے۔
اور لہو و لعب سے کوسوں دور رہناچاہیے۔ عید الفطر کے دن غرباء و مساکین کی امداد و تعاون کرنا، بیماروں کی مزاج پرسی کرنا، دوستوں سے اظہار محبت کرنا۔اپنے سے کمتروں اور زیر دستوں کا خیال کرنا، بچوں سے شفقت و نرمی سے پیش آنا، بڑوں کی تعظیم کرنا، نرمی، رواداری اور بھائی چارے کا رویہ اپنانا یہ سب ہماری دینی اور اخلاقی ذمے داریاں ہیں۔عام طورپرمسلمان عید کی خوشی منانے کے لیے اپنے گھروالوں اور بچوں کے لیے طرح طرح کے سامان خریدتے ہیں بلاشبہ بچوں اور گھر والوں کو خوش رکھنا کار ثواب ہے مگر اکثر یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ یہ خریداری فضول خرچی کے زمرے میں آتی ہے۔
اگر ہم تھوڑی سی کفایت شعاری سے کام لیں اور غریب بچوں کو بھی اپنی اس خریداری میں شامل کرلیں اور ان کو اپنے بچے سمجھ کر ان کے لیے کچھ نہ کچھ خرید لیں تو یقینا یہ ایک بہت بڑا کار ثواب ہو گا یہ ایک عظیم دینی، سماجی اور اخلاقی ذمیداری کو پورا کرنا ہوگا۔ اس کے جو نتائج برآمد ہوں گے وہ معاشرے پر ایک مثبت اثرچھوڑیں گے۔ اجتماعی طور پرنہ ہوسکے تو انفرادی طور پر ہی سہی اگر مسلمان اس سمت کمر ہمت کس لیں تو معاشرے میں یقیناایک عظیم انقلاب برپاکیاجاسکے گا۔
دوسرے مذاہب یا دورِ جاہلیت کے تہوار اور مسلمانوں کی عید میں یہ ایک نمایاں فرق ہے کہ اسلام میں عید کا مطلب اللہ کی قربت، اس کا ذکر اور اس کی بڑائی بیان کرنا ہے۔ خدا نے ماہِ رمضان کے مبارک روزے رکھنے کے بعد عید جیسی عظیم خوشی عطا کی اس کے شکر میں دوگان عید ادا کرنا، نیز روزہ رکھنے پر اور اس بات پر کہ خدا نے اس لائق بنایا کہ میں عید کی اِس خوشی کو حاصل کرسکوں، خدا اور اس کے رسول کے حکم کو بجالاتے ہوئے کھلے دل کے ساتھ صدقہ فطر ادا کرنا، تاکہ دوسرے غریب ومسکین مسلمان بھی ہمارے ساتھ عیدکی خوشیوں میں شریک ہوجائیں۔
عید کا مطلب ہی یہی ہے کہ ہمارے قلوب آپس میں اس کی برکت سے محبت کرنے لگیں، ہمارے درمیان جو جدائی اور دوری پیدا ہوگئی ہے وہ ختم ہوجائے، دل میں جو کدورت ہے، اس کا نام ونشان بھی باقی نہ رہے، نیز عید کی خوشی ہر گھر اور ہر کوچہ میں پہنچ جائے، اور ہر اہلِ خانہ پر اِس کی خوشی عام ہوجائے، اسی لیے اسلام میں اس موقع پر صدقہ فطر ادا کرنے کا بھی حکم ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو غریبوں کی مدد کرنے کی توفیق عطاء کرے آمین۔