|

وقتِ اشاعت :   May 30 – 2020

سابق جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں لال مسجد آپریشن محترمہ بے نظیر بھٹو اور بلوچ قوم پرست رہنما ء جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ پارلیمنٹ کی سیاست پر یقین رکھنے والے نواب اکبرخان بگٹی کی شہادت کے واقعات نے ملکی سیاست خاص کر بلوچستان کی سیاست پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ نواب اکبرخان بگٹی کی شہادت کے بعد بلوچستان کے قوم پرستوں نے احتجاج کا راستہ اختیار کرتے ہوئے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، بلوچستان کے محب وطنوں کو خیال آیا اب کیا جائے لہذانام نہاد سیاسی رہنماؤں کو آگے لانے کیلئے بھاگ دوڑ شروع کردی گئی اور آخر کار ایسے خاموش مہرے لانے میں کامیاب ہو گئے جو یونین کونسل کا الیکشن ہار چکے تھے،دودھ فروش، مسجد میں طلباء کو پڑھانے والے، کیبن چلانے والوں کو لاکر بلوچستان کے عوام پر مسلط کردیا گیا جو ہزار روپے کیلئے پریشان گھومتے تھے کروڑوں میں کھیلنے لگے۔

یہاں میں دو واقعات بیان کرنا چاہوں گا سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم خان رئیسانی کے دور حکومت کے بی ڈی اے کے صوبائی وزیر محمد اسماعیل گجر کے گھر تعزیت کرنے کیلئے وزیرداخلہ ظفر زہری،صوبائی وزیر مواصلات میر محمد صادق عمرانی کے ہمراہ گئے، مہمانوں کیلئے ڈرائی فروٹ، چائے کیک کے ہمراہ دو تین جگ لسی کے لائے گئے تو وزراء نے مذاق کرتے ہوئے گجر صاحب سے کہا،یہ لسی کیوں لائے ہو، گجر صاحب مسکراتے ہوئے کہاکہ ظفر صاحب آپ تو نواب ہیں، صادق صاحب پیپلز پارٹی کے ورکر ہیں ہم تو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے حادثاتی طور پر آئے ہیں بعد میں مشکل ہے اس لیے بھنیسوں کی تعدادگنی کردی گئی ہے، ہمیں دودھ بیچنا ہو گا۔ دوسرا واقعہ نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نے ڈیرہ مراد جمالی میں این جی اوز کے سیمینار کے اختتام پر بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ ہم عام انتخابات کے بائیکاٹ کے حق میں نہ تھے لیکن بزرگ رہنماء ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کے بائیکاٹ کے فیصلے کے خلاف نہ جاسکے، ہم سے زبیدہ جلال کی محب وطنوں نے سیٹ مانگی تھی بدلے میں چھ سے سات سیٹیں دینے کی بات کی گئی تھی۔

محب وطنوں کوایک بات سمجھنی چاہیے اللہ نہ کرے بلوچستان پر کوئی کڑا وقت آیا، پی ٹی وی پرترکی کا چلنے والا ڈرامہ”ارطغرل غازی“ کے ایک کردار،، کردوغلو،، کی طرح دشمن غداری کرتے ہوئے دشمن سے جاملیں گے۔بلوچ قوم پرستوں کے بائیکاٹ کے فیصلے کی وجہ سے بلوچستان کی سیاست میں بہت سے گمنام چہرے سامنے آئے، اس طرح بلوچستان میں بے لگام کرپشن کو فروغ دیا گیا۔وفاق سے آغاز حقوق پیکج، این ایف سی ایوارڈ کے نام سے ملنے والے آٹھ سو ارب روپے کہاں گئے،کسی نے نہ دیکھے۔ نہ کوئی اچھا ہسپتال بنا،نہ کوئی اچھی سڑک، نہ کوئی یونیورسٹی اور نہ ہی ضلع کی سطح پر شہروں کی حالت بہتر بنائی گئی۔ جبکہ این جی اوز میں کام کرنے والے، دکانیں چلانے والے، رکشہ اور سائیکل پر رکن صوبائی اسمبلی کا حلف لینے والے ارب پتی بن گئے جن کے ذمہ دار قوم پرست جماعتیں ہیں۔

نہ بائیکاٹ کرتے اور نہ سیاسی یتیم موقع پرست محب وطنوں کی مدد سے سیاسی نظام میں،، کردوغلو،، کی طرح داخل ہوکر کرپشن کے بے تاج بادشاہ بن جاتے۔ پانچ سال کے بعد جب قوم پرستوں جماعتوں نے عام انتخابات میں حصہ لیا تو بھوکے شیر کی طرح اقتدار پر ٹوٹ پڑے،اس کی ایک مثا ل دینا چاہوں گا بلوچستان میں محکمہ صحت کی ہسپتالوں میں ملنے والی ادویات ملٹی نیشنل کمپنیوں کی معیاری ہوتی تھیں، جب پرائیویٹ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو دکھاتے تھے ڈاکٹر مشورہ دیتے تھے اس گروپ کی ادویات اگر سول ہسپتال سے مل جائیں تو فائدہ ہو گا۔ سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالماک بلوچ کے دور حکومت میں ان کے وزیرصحت میر رحمت صالح بلوچ نے سول ہسپتال کی ادویات کی حالت بدل دی، نیٹ کی ادویات غیر معیاری سول ہسپتالوں کو فراہم کرنے کی منظوری دے دی گئی جس دوائی پر قیمت تین ہزار لکھی ہوتی ہے وہ عام مارکیٹ میں دو سو سے تین سو کی ہوتی ہے رحمت بلوچ نے تین ہزار میں خرید لی۔ آج بھی بلوچستان کی سول ہسپتالوں میں غیر معیاری ادویات کی خریداری کا سلسلہ جاری ہے ادویات خریدنے والے محکمہ صحت کے ذمہ دار بتاتے ہیں۔

رحمت بلوچ کے دور میں منظور ہونے والی ادویات خریدنا مجبوری بن چکی ہے کیونکہ یہ محکمہ صحت کی پالیسی میں شامل ہو چکی ہے۔ کرونا وائرس کے دوران سول ہسپتالوں کی او پی ڈیز بند پڑی ہیں عام بیماریوں کے مریض رل رہے ہیں۔سیکریڑی صحت، ڈائریکٹر صحت سول ہسپتالوں میں او پی ڈیز بحال کرنے کے بجائے بلوچستان میں کرفیو لگانے کی تجویز دے رہے ہیں، ہونا تو یہ چاہیے بلوچستان میں صحت ایمرجنسی لگا کر کوئٹہ کے سرکاری پروفیسروں، سرجنوں، سنیئر ڈاکٹروں کو حاضر کرکے تمام کوئٹہ کے نجی ہسپتالوں کے مالکان کو پابند کیا جائے کہ ڈاکڑوں کی موجودگی کو یقینی بنائیں ورنہ ہسپتال سیل کردیئے جائیں گے۔