عید الفطر کی نماز کی ادائیگی کے لیے گھر سے روانہ ہوا۔ اپنی بساط کے مطابق نئے کپڑے وغیرہ پہن کر کوئٹہ شہر کے نامور مقرر مولانا کے اقتدا میں نماز پڑھنے کا شرف حاصل کرنے نکلا۔ وہ مسجد اچھے خاصے صاحب ثروت لوگوں کے محلے میں واقع ہے۔ ساڑھے سات بجے نماز کا اعلان ہوچکا تھا۔سات بجے مسجد پہنچااور حسب روایت عیدالفطرکے پر مغز تقریر کے انتظارمیں تھالیکن مولانا صاحب مسجد میں موجود نہیں تھے۔ آس پاس لوگوں سے پتہ چلا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے احتیاطی تدابیر کے طور پر اس مرتبہ تقریر نہیں ہوگی۔خطبہ دو رکعت نماز اور مختصر دعا ہوگی۔
مولانا صاحب کی پر مغز تقریر سننے کا شوق ادھورا رہ گیا۔ اور انتظار کرتے ہوئے میری نظر آس پاس لوگوں پر پڑی توحیرت میں ڈوب گیا۔ میرے سامنے صف میں ایک ضعیف العمر شخص پرانے کپڑوں میں نماز کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ جب تجسس کی نگاہ سے لوگوں کو دیکھنے لگا۔ پرانے کپڑوں میں ملبوس لوگ ماضی کی نسبت بہت زیادہ ہو چکے تھے۔میرے بائیں جانب ایک شخص اپنے چار سالہ بیٹے کے ساتھ نماز کے انتظار میں ذکر میں مشغول تھا۔ اس جانب توجہ دی۔ اس شخص نے پرانے کپڑے پہنے تھے لیکن اس کی زبان ذکر الٰہی سے تر تھی اور بیٹے کو نئے کپڑے سلوا کر دیے تھے۔
ان لوگوں کو دیکھنے کے بعد سوچنے پر مجبور ہوا،اور اندر سے دل ہل کر رہ گیا۔ موجودہ معاشی ابتری کی وجہ سے لوگ عید کے کپڑوں سے محروم ہوگئے ہیں۔لہذا میں اپنے نئے کپڑوں میں خود کو آرام دہ محسوس نہیں کر رہا تھا۔ ان لوگوں کی حالت زار کو دیکھ کر عجیب سی کیفیت میں گھر کی جانب روانہ ہوا۔بوجھل قدموں کے ساتھ گھر کی جانب روانہ ہوا، پتا نہیں کیوں عیدالفطر کے یہ لمحات دل و دماغ پر اپنے اثرات چھوڑ گئے۔ان محرومیوں کو دیکھنے اور سوچنے کے بعد مجھے امیرالمومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃاللہ علیہ کی خلافت کے دور کا واقعہ یاد آیا۔
امیرالمومنین عمر بن عبدالعزیز امورمملکت کا کام کر کے تھکے ماندے گھر تشریف لائے اور آرام کرنے لیٹے ہی تھے کہ بیوی نے غمگین لہجے میں کہا، امیرالمومنین عید آنے والی ہے۔بچے عید کے کپڑے خریدنے کے آرزومند ہیں۔اس خواہش میں روتے ہوئے سو گئے ہیں۔حضرت عمر بن عبدالعزیز نے بیوی سے مخاطب ہوکر گویا ہوئے۔کہ آپ کو معلوم ہے مجھے سو سو درہم ماہانہ ملتے ہیں جس سے گھر کا خرچہ بڑی مشکل سے پورا ہوتا ہے۔ امیرالمومنین کی اہلیہ نے بچوں کی شدید آرزو کو مدنظر رکھتے ہوئے مشورہ دیا کہ بیت المال سے کچھ قرض لے لو۔
عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا بیت المال پر غریبوں، یتیموں اور فقیروں اور پوری قوم کا حق ہے میں تو بیت المال پر صرف امین ہوں۔ بیوی نے کہا کہ امیرالمومنین آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن بچے اصرار کر رہے ہیں۔انکے آنسو مجھ سے برداشت نہیں ہوتے۔عمر بن عبدالعزیز نے کہا۔کہ اگر تمہارے پاس کوئی قیمتی چیز ہے تو اسے فروخت کر دو اور بچوں کو کپڑے لے کر دو۔ بیوی نے کہا کہ گھر میں کوئی قیمتی چیز موجود نہیں۔ میرے تمام قیمتی زیورات اور قیمتی ہار جو میرے والد صاحب نے مجھے تحفے میں دیا تھا۔آپ نے بیت المال میں جمع کردیا۔اب تو میرے پاس آپ کی محبت کے سوا کچھ نہیں ہے۔امیرالمومنین نے سر جھکا لیا اور بڑی دیر تک سوچتے رہے، اپنے ماضی میں جھانکنے لگے۔
جوانی کو،خوش پوشی، نفاست جولباس ایک بار پہنا دوبارہ پہننے کا موقع نہیں ملتا۔ جس راستے سے گزرتے وہ خوشبو سے معطر ہوجاتی۔سوچتے رہے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ بیوی نے جب اپنے دلعزیز شوہر کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو کہنے لگی مجھے معاف کر دو۔میری وجہ سے آپ پریشان ہوگئے۔ توامیرالمومنین نے کہا کوئی بات نہیں نہیں۔امیرالمومنین نے بیت المال کے نگران کے نام ایک خط لکھا جس میں ایک ماہ کی پیشگی تنخواہ طلب کی جس کے ذریعے بچوں کو عید کے کپڑے لے کر دینے تھے۔وہ خط بیت المال کے نگران کے پاس آیا تو اس نے جواباًایک خط لکھا جس میں لکھا گیا تھا۔
اے خلیفۃ المسلمین آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ ایک ماہ تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ جب آپ کی نظر خط کے اس جملے پر پڑی تو رونے لگے اور کہا کے بیت المال کے نگران نے مجھے ہلاکت سے بچا لیا۔اگلے ہفتے دمشق کے لوگوں نے دیکھاکہ امراء کے بچے نئے کپڑے پہن کر عید گاہ جارہے تھے۔مگر امیرالمومنین کے بچے پرانے دھلے ہوئے کپڑوں میں ملبوس اپنے والد کے ساتھ عید گاہ جارہے تھے۔
بچوں کے چہرے چاند کی طرح چمک رہے تھے کیونکہ آج ان کی نظر فانی دنیا کے وقتی خوشی پر نہیں بلکہ جنت کی ابدی تمنا کے احساس نے سرشار کر رکھا تھا۔اقرار الحسن رمضان المبارک میں اپنی بساط کے مطابق غریبوں میں مفت کھانا تقسیم کر رہا تھا۔ایس او پیز پر عملدرآمد جاری تھی لیکن انتظامیہ نے اسے اس کام سے روک دیا۔پتہ چلنے پر معلوم ہوا کہ گراؤنڈ کے ساتھ بڑے بنگلے والے نے شکایت کی ہے کہ یہاں غریب لوگوں میں مفت تقسیم ہونے کی وجہ سے انہیں تکلیف پہنچ رہی ہے،اس وجہ سے یہاں مفت کھانا تقسیم نہ کیا جائے۔
انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے جو طاقت رکھی ہے،اگر اس کا استعمال مثبت رخ پر ہو تو کمال کے درجے پر پہنچ جاتا ہے لیکن اگر اس طاقت کا رخ استعمال منفی رخ پر کیا جائے تو شیطان سے بدتر ہو جاتا ہے۔ ہمیں اپنے حال پر غور کرنا چاہیے کہ ہم کس سمت رواں ہیں۔ زندگی تو برف کے مانند پگھل رہی ہے اورکن اعمال کے تحت سفر آخرت کی جانب بڑھ رہی ہے،ہمارے اعمال ہمارے لیے باعث نجات ہیں یا نہیں۔
حاجی عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے
جب تک سانس ہے تو چانس ہے۔