نجی تعلیمی اداروں کی ذمہ داران اور حکومت کے درمیان تعلیمی اداروں کی بندش کے خلاف ایک سرد جنگ جاری ہے۔آل پاکستان پرائیویٹ اسکولزایسوسی ایشن نے یکم جون سے ملک بھر میں اسکول کھولنے جبکہ حکومت نے پندرہ جولائی تک تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کر چکی ہے، اسکول انتظامیہ اس اعلان کے خلاف سراپا احتجاج ہے،اور یہ احتجاج اپنی جگہ ٹھیک ہے کیونکہ تعلیمی اداروں کے علاوہ مارکیٹیں،ہوٹلز ریسٹورنٹس،وغیرہ کھل گئے ہیں تو تعلیمی ادروں کا کیا قصور، اگر تعلیمی اداروں کی بندش مزید بڑھ گئی تو بچوں کے تعلیم پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے اور اکثر بچے اسکول چھوڑ بھی سکتے ہیں۔
ویسے بھی مسلمان بچوں میں سلسلہ تعلیم کو منقطع کر دینے کا تناسب بہت زیادہ ہے، بہت سے طلبہ تو ساتویں آٹھویں جماعت ہی میں تعلیم منقطع کر دیتے ہیں، اور انٹر کے بعد تو تعلیم چھوڑنے کا سلسلہ بہت زیادہ ہے، مسلمان نوجوانوں میں گریجویشن تک پہنچنے کا تناسب برادران وطن کی نسبت کافی کم ہے، اور یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ جس امت کو سب سے پہلے پڑھنے،پڑھانے کا سبق دیا گیا، وہ تعلیم میں غفلت کے اعتبار سے ضرب المثل بنی ہوئی ہے۔ہم دن رات جن اقوام کے ساتھ رہتے ہیں، ان کے یہاں حصولِ تعلیم کا جذبہ جتنا بے پناہ ہے، ہم ابھی اس میں بہت پیچھے ہیں۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ د لِت جنھیں ہندوستانی معاشرہ میں کوے اور چیل کے برابر سمجھا جاتا تھا، تعلیم کے میدان میں وہ بھی نمایاں مقام حاصل کرنے کے لئے شب و روز کو شاں ہیں، جن گھروں میں اسکول جانے کا کوئی تصور نہیں تھا، اور بچے عقل و ہوش سنبھالتے ہی اپنے ہاتھوں میں کدال اور پھاؤڑے لے کر محنت مزدوری کے لئے کھیتوں اور بازاروں میں گھومتے رہتے تھے، اب ان کی پیٹھ پر کتابوں کے بھاری بیگ ہوا کرتے ہیں اور انھوں نے اسکول کی دنیا کو اپنے آپ سے آباد کر رکھا ہے؛ لیکن ہم مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ہمارا سفر پیچھے کی طرف ہے۔
ہم نے ترقی کی بجائے تنزل کو اور محنت کی بجائے تن آسانی و سہل انگاری کو اپنا منزل بنا لیا ہے۔اس کے کئی اسباب ہیں، پہلا سبب تعلیم کے معاملے میں ہماری بے شعوری ہے، مسلمانوں میں آج بھی ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو تعلیم کی اہمیت سے نابلد ہیں، مسلمانوں میں جو مزدور اور کم معاش طبقہ ہے، وہ ابھی تک اسی فکر کا اسیر ہے کہ اپنے بچوں کو پتھر پھوڑنے، ہوٹلوں کی میز صاف کرنے اور اس طرح کے دوسرے کاموں میں لگادیا جائے؛ تاکہ یومیہ دس بیس روپے آجائیں اور گھر چلانے میں آسانی ہو، باشعور مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ انھیں بتائیں کہ یہ چند پیسے ان کے روشن مستقبل کو تاریک کرنے کا ذریعہ ہیں۔
اس لئے وہ ابھی تکلیفیں اْٹھا کر اور مشقتیں جھیل کر اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں تو آج کے دس روپے کل دس ہزار لا سکتے ہیں۔ رسول اللہ نے بدر کے قیدیوں میں پڑھے لکھے لوگوں کے لئے دس بچوں کی نو شت و خواند سکھانے کو فدیہ قرار دیا تھا، یہ وہ وقت تھا کہ مسلمان فاقہ مستیوں سے دو چار تھے اور ان کو مالی وسائل کی زیادہ احتیاج تھی؛ لیکن آپ نے معاشی ضرورت پر تعلیمی ضرورت کو مقدم رکھا۔تعلیم سے غفلت تاجروں کے طبقہ میں بھی پائی جاتی ہے، بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اگر یہ پڑھ لکھ کر اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کر لیں تو اس کو اسی تجارت یا کاروبار میں لگنا ہے۔
ایسی صورت میں زیادہ تعلیم کی کیا ضرورت ہے؟ اگر بہ قدر ضرورت تعلیم کے بعد اسے کاروبار میں لگادیا جائے تو پیسے بھی بچیں گے اور وقت بھی بچے گا، نیز جتنی مدت اس کے حصولِ تعلیم میں لگتی، اس میں اسے کام کا اچھا خاصا تجربہ ہو جائے گا؛ لیکن یہ کھوٹی سوچ ہے، کاروبار میں اْتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے، یہ کوئی قابل بھروسہ ذریعہ معاش نہیں ہے، دْکانیں جلائی جاسکتی ہیں، سامان واسباب لوٹے جاسکتے ہیں؛ لیکن علم ایسی متاع گراں مایہ ہے کہ نہ اسے لوٹا جاسکتا ہے اور نہ جلایا جاسکتا ہے، علم انسان کا اصل جوہر ہے، اس سے انسان کی عزت اور اس کے کنبے اور قوم کا وقار متعلق ہے، اس لئے علم بجائے خود ایک بہت بڑی نعمت ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، قرآن نے اسی لئے کہا ہے کہ علم رکھنے والے اور علم سے بے بہرہ برابر نہیں ہوسکتے۔(الزمر: ۹)
تعلیمی پسماندگی کا دوسرا سبب ہمارا اسراف اور فضول خرچی ہے، صورت ِحال یہ ہے کہ شادی بیاہ، بچوں کی بسم اللہ، ختنہ اور عقیقہ کی تقریبات نیز موت سے متعلق طبع زاد رسم و رواج کی تکمیل میں ہم اپنا پیسہ پانی کی طرح بہاتے ہیں، سودی قرض لینے اور اپنی بنیادی ضرورت کی چیزوں کو فروخت کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے، ظاہر ہے کہ جب ہمارے پیسے ایسی بیکار چیزوں پر خرچ ہونگی تو جائز ضروریات کے لئے پیسے کیسے بچ سکیں گے؟ اگر ہم اس اسراف کے خلاف مہم چلائیں اور اپنے اور اپنی قوم کے بچوں کی تعلیم کی فکر کریں تو انہی پیسوں کے ذریعہ ہم ان کی تعلیمی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں۔
اگر متوسط آمدنی کے لوگ یہ طے کرلیں کہ وہ سادہ طریقہ پر اپنے بچوں کی تقریبات نکاح انجام دیں گے اور بچے ہوئے پیسوں سے اپنے بچوں کے علاوہ قوم کے ایک بچہ کی تعلیمی کفالت کریں گے، تو اس طرح سماج کے کتنے ہی غریب بچوں کی تعلیم کی صورت نکل آئے گی۔ہماری تعلیمی پسماندگانی کا تیسرا سبب طلبہ و طالبات کے سرپرست کا اپنے بچوں کی تعلیم کی طرف سے بے تعلق اور غافل رہنا ہے، صورتِ حال یہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کر دیتے ہیں اور پھر کبھی پلٹ کر اس بات کا جائزہ نہیں لیتے کہ ان کا تعلیمی رجحان کیا ہے؟ وہ پابندی سے اسکول جابھی رہے ہیں یا نہیں؟
سرپرست سے عام طور پر اسکول کے ذمہ داروں کو یہ شکایت ہے، سر پرست کی غفلت کی وجہ سے نوعمر اور مستقبل کے نفع و نقصان سے بے خبر بچے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں، وہ کثرت سے غیر حاضر رہتے ہیں، مفوضہ کام انجام نہیں دیتے، ڈسپلن شکنی کرتے ہیں، اساتذہ او رذمہ داروں کے ساتھ بد تمیزی کا رویہ اختیار کرتے ہیں، اورسرپرست کے عدمِ تعاون کی وجہ سے ان کی بروقت فہمائش نہیں ہوپاتی؛ اس لئے ان کی بیماری بڑھتی جاتی ہے، یہاں تک کہ ناقابل علاج ہو جاتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ تعلیم میں طلبہ، سرپرست اور اساتذہ تینوں کی ذمہ داری برابر درجہ کی ہے، سرپرست کی غفلت کی وجہ سے نہ صرف ایک تہائی ذمہ داری متاثر ہوتی ہے۔
بلکہ طلبہ بھی اپنے فرائض سے غافل ہو جاتے ہیں، اس طرح دوہرا نقصان ہوتا ہے؛ اس لئے اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ جو سرپرست خود تعلیم یافتہ ہوں وہ تو آپ اس کی اہمیت محسوس کریں اور جو سرپرست ناخواندہ یا کم پڑھے لکھے ہیں ان میں یہ شعور پیدا کیا جائے کہ وہ وقتاً فوقتاً اپنے بچوں کی تعلیم کے سلسلہ میں اسکول پہنچ کر تفتیش حال کریں۔ہماری تعلیمی پسماندگی کا ایک اہم سبب مسلمانوں کے زیر انتظام تعلیم گاہوں کے ساتھ عدم تعاون ہے، ہم اسٹیج پر تو اپنی قوم کو تعلیم کی طرف متوجہ کرتے ہیں؛ لیکن جو اسکول ہمارے زیر انتظام ہیں، ہم ان کے ساتھ بالکل تعاون نہیں کرتے۔
ہم یہ نہیں سوچتے کہ اس ادارے میں کام کرنے والا اسٹاف میرے بچوں کی محسن لیکن ان کی ضروریات بھی ہوتی ہیں، اگر ہم اپنے بچوں کی چھٹیوں کا فیس جمع نہیں کرینگے تو اس ادارے کا ذمہ دار اخراجات کہاں سے پورا کرے گا، اسٹاف کی تنخواہیں،اسکول بلڈنگ کا کرایہ کہاں سے آئیں گے، ہمارے بلوچستان کے اسکولوں کی اتنی بڑی آمدنی نہیں ہے کہ وہ چار مہینوں کے اخراجات، تنخواہیں،،بلڈنگ کا کرایہ،فیس لیے بغیر ادا کر سکیں۔