بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں امن و امان اور تعلیم کے بعد صحت عامہ کیلئے خطیر رقم مختص کی جاتی ہے۔ بلوچستان میں 32 اضلاع ہیں جہاں چھوٹے بڑے ہسپتال قائم ہیں اور پورے صوبے میں دو درجن سے زائد ڈی ایچ کیو ہسپتال ہیں جن کے بلڈنگ قائم ہیں ان میں یاتو ڈاکٹرز کی کمی ہے یا پھر ان میں ادویات نایاب ہیں۔ بلوچستان میں ڈاکٹروں کی کمی اور علاج معالجہ ی بہترین سہولیات نہ ہونے کے باعث پورے ملک کی نسبت یہاں شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ بلوچستان میں موذی اورخطرناک بیماریوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے بلوچستان میں جتنے بھی سرکاری ہسپتال قائم کیئے گئے ہیں۔
ان میں شاید کوئی ایسا ہسپتال ہو جہاں تمام امراض کے ڈاکٹر موجود ہوں۔ پورے صوبے میں اس طرح کی کوئی مثال نہیں ملے گی بلوچستان میں ایسا کوئی بھی مثالی اسپتال نہیں ہوگا جہاں لوگ علاج معالجہ کے حوالے سے مطمئن ہوں۔ صوبے کے دو بڑے ہسپتال بولان میڈیکل کالج ہسپتال اور سینڈیمن سول ہسپتال میں بھی علاج کی وہ سہولیات میسر نہیں جہاں لوگ مطمئن ہو کر اپنے پیاروں کا علاج کراتے ہوں۔بلوچستان کے ہسپتال لوگوں کو علاج کی سہولیات دینے کے بجائے موت کی فیکٹریاں یا مقتل گاہ بنتے جا رہے ہیں۔
بہتر علاج نہ ہونے کے باعث اور ڈاکٹروں کی عدم توجہی سے بلوچستان کے ان ہسپتالوں میں موت کا رقص ہمہ وقت جاری رہتا ہے۔ بلوچستان میں آج تک کسی حکومت نے بہترین ہسپتال قائم کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی ہے اور نہ ہی کسی ایم پی اے نے اس سلسلے میں کوئی آواز بلند کی ہے۔ بلوچستان کے خواص اور امیر طبقہ اپنا علاج ملک کے بہترین ہسپتالوں میں یا پھر ملک سے باہر جاکر کراتے ہیں لیکن غریب صوبے کے عوام ان مقتل گاہ نما ہسپتالوں میں علاج کرانے پر مجبور ہیں۔ بلوچستان میں بیماریوں کی شرح میں روز بروز خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
جہاں صاف پانی نہ ہونے کے باعث صوبے کی اکثریتی اضلاع میں خطرناک بیماری ہیپاٹائٹس بی سی ڈی کی اقسام پائی جاتی ہیں۔ نصیرآباد، خضدار سمیت دیگر علاقوں میں یہ بیماری صوبے کے غریب عوام کا آسانی سے شکار کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب بلوچستان میں خواتین کی اموات کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہیجہاں دوران زچگی خواتین موت کا شکار ہو رہی ہیں۔ بلوچستان میں کینسر کے مرض میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ دیگر امراض میں دل، شوگر، بلڈ پریشر، گردے،ملیریا,ٹائیفائڈ اور بچوں کی بیماریاں شامل ہیں۔
نیز روڈ حادثات، معمولی لڑائی جھگڑے سمیت دیگر امراض کے مریضوں کو اندرون صوبے کے ہسپتالوں میں علاج کی سہولیات تک میسر نہیں ان مریضوں کو بھی کوئٹہ یا سندھ ریفر کر دیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں صحت عامہ کی سہولیات کی عدم دستیابی کا پول عوام کے سامنے کورونا وائرس نے کھول دیا، پورے صوبے میں اب کسی دوسرے مریض کو او پی ڈی کی سہولت فراہم نہیں کی جا رہی سوائے کورونا مریض کے۔ ستم یہ ہے کہ کورونا وائرس کا اب تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے اور نہ ہی کوئی ویکسین تیار کی گئی ہے لیکن اس کے باوجود صرف آئسولیشن یعنی ایک کمرے میں بند کرنے کے بھی بھاری اخراجات یعنی لاکھوں روپے شو کئے جا رہے ہیں۔
کورونا وائرس کے فی مریض پر 25 لاکھ اخراجات کا علم پاکستانی قوم کوسپریم کورٹ سوموٹو کیس سے ہواجس پر محترم چیف جسٹس صاحب نے ریمارکس دیئے کہ نہ دوائی اور نہ ویکسئین صرف آئسولیشن پر اتنے اخراجات کیئے جا رہے ہیں۔ اب بلوچستان میں دوسرے امراض کے مریض بے شک ٹرپ تڑپ کر ہسپتالوں میں جان دے دیں لیکن ان کو علاج کی سہولیات فراہم نہیں ہونگی۔ کیا بلوچستان میں دوسرے خطرناک امراض کے علاج اور مریضوں کو کیئر کرنے کی ضرورت نہیں،کیا کورونا کینسر،دل کے امراض،گردوں کی بیماری، جگر کی بیماری،شوگر و دیگر موذی بیماریوں سے بھی خطرناک ہے۔
آج بھی آپ پورے صوبے میں کورونا کے علاوہ دوسری بیماریوں سے اموات کا جائزہ لیں تو کورونا ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں یا یوں کہیں کہ کورونا دیگر بیماریوں کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے۔بلوچستان میں جہاں کورونا وائرس کا کوئی علاج نہیں وہاں صوبائی حکومت دیگر بیماریوں پر کوئی خاص توجہ اور علاج کی سہولیات بھی نہیں دے رہی۔ جبکہ دوسری جانب بلوچستان میں کسی حد تک قابل اعتبار اور معیاری علاج کمبائنڈ ملٹری ہسپتال سی ایم ایچ کو سمجھا جاتا ہے اب کورونا وائرس کے باعث وہاں صرف کورونا مریضوں کے علاوہ کسی کا علاج نہیں کیا جاتا۔
اطلاعات ہیں کہ اسی ہسپتال میں سویلین حضرات کو کورونا وائرس کے باعث علاج کی سہولیات کی فراہمی عارضی طور پر بند کر دی گئی ہے۔ بلوچستان کے عوام یا تو بے حس ہو چکے ہیں یا پھر وہ مجبور ہیں یا پھر انہیں علم ہے کہ عوام کو کون پوچھتا ہے جس کے باعث انہوں نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ دوسری جانب صوبے کے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو بھی دو ہاتھوں سے سلام کہ انہیں صوبے کے صحت عامہ کی ناگفتہ بہ صورت حال پر کبھی کوئی تحریک پیش کرنے کی جسارت تک نہیں ہوئی ہے،کبھی صوبے میں علاج کی سہولیات پر بحث نہیں کی ہے،کبھی ان ہسپتالوں میں ادوایات کی عدم فراہمی پر گفتگو نہیں کی ہے۔
کبھی صوبے کے سرکاری ہسپتالوں میں غیر معیاری ادویات کی خریداری پر کسی نے لب کشائی نہیں کی ہے۔ آپ بلوچستان اسمبلی کے اجلاسوں کی تفصیلات نکالیں آپ کو کبھی صحت، تعلیم،بنیادی سہولیات پر کسی معزز رکن کو گفتگو یا بحث کرتے ہوئے نہیں سنیں گے، آپ کبھی کسی معزز رکن کی جانب سے ان اسپتالوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کی کوئی تجویز نہیں سنیں گے۔ تاہم آپ ان اراکین اسمبلی کے جھگڑوں کی تفصیلات پی ایس ڈی پی میں کم حصہ ملنے پر ضرور سنیں گے۔ معزز اراکین کا اپنے اپنے حلقوں کو فنڈز کی کمی اور نظرانداز ہونے پر واک آؤٹ کرنے کا تماشا ضرور دیکھیں گے۔
آج تک میری دانست کے مطابق کسی معزز رکن نے احتجاج یا واک آؤٹ صوبے میں صحت کی صورتحال اور سرکاری اسپتالوں کی بہتری کے بارے میں نہیں کیا ہوگا اور نہ ہی کسی معزز رکن کی جانب سے علاج معالجہ کی سہولیات کی فراہمی کے بارے میں کسی ممبر اسمبلی نے احتجاج کیا ہوگا۔ ان معزز ممبران اسمبلی کو صوبے کے ان سرکاری اسپتالوں کی بہتری کی کیونکر ضرورت ہوگی، کیا صوبے کے ایلیٹ کلاس اپنا علاج ان سرکاری اسپتالوں سے کراتے ہیں جب ایلیٹ کلاس اپنا علاج ان سرکاری اسپتالوں سے کراتے ہی نہیں تو وہ کیونکرصوبے کی ابتر صحت عامہ کی سہولیات کے بارے میں اپنا وقت ضائع کریں۔
اور وہ اس پر بحث کرکے اپنی توانائی کیونکر ضائع کریں اور صوبے کے ان سرکاری اسپتالوں سے ان کو کیا فائدے حاصل ہو سکتے ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ حکومت،اسٹیبلشمنٹ، حزب اقتدار اور ارباب اختیار کو سوچنا ہوگا تعلیم اور صحت کو پہلی ترجیح دینا ہوگا صوبے کے تباہ حال سرکاری اسپتالوں کو از سر نو بہتر کرنا ہوگا۔ صوبے بھر کے سرکاری ہسپتالوں کو ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا اور صوبے بھر کے ہسپتالوں میں تمام امراض کے ماہر اور اسپیشلٹ ڈاکٹروں کا تقرر کرنا ہوگا۔ تمام اسپتالوں میں مفت علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانا ہوگا اور کسی بھی مریض کو علاج کیئے بغیر کوئی بھی ڈاکٹر ریفر نہ کرے گا۔
صوبے کے ڈاکٹر زاور پیرا میڈکس کو ہسپتالوں میں سو فیصد حاضری یقینی بنانا ہوگا،غیر حاضر ڈاکٹروں کے خلاف کاروائی کرنا ہوگی اور سب سے اہم بات یہ کہ اب حکومتی اراکین اور حزب مخالف کو ایک بل مشترکہ طور پر صوبائی اسمبلی سے پاس کرانا ہوگا کہ ہر علاقے کا رکن اپنا علاج اپنے حلقے کے سرکاری اسپتال سے کرائے گا تو پھر شاہد ہمارے ارباب اختیار کو ہوش آئے کہ وہ صوبے کے سرکاری ہسپتالوں کو بہتر کریں۔ تاہم بلوچستان کرپشن کی وہ جنت ہے جہاں اس طرح قیامت تک صرف سوچا جا سکے گا لیکن عملی طور پر اس طرح کے اقدامات صرف خام خیالی ہو سکتے ہیں۔
اور عوام بھی ماشاء اللہ بڑے صبر وتحمل کا مظاہرہ کرکے اپنے پیاروں کو دفنانے پر ہی اکتفا کر رہے ہونگے۔جب تک عوام باشعور نہیں ہو گا ہم اسی طرح بیمار معاشرے اور جاہل افراد کو فروغ دیکر صوبے کے عوام اور نونہالوں کے لئے ماتم کرکے وقتی طور پر اپنے حکمرانوں کو ملامت کرنے کے بعد پھر انہی حکمرانوں کے بھلے بھلے اور جی حضوری کرکے اپنی غلام ذہنیت کا عملی مظاہرہ کرتے رہیں گے۔