|

وقتِ اشاعت :   June 2 – 2020

کرونا کی تباکاریاں دنیا میں زوال کی جانب اور پاکستان میں عروج کی جانب گامزن ہیں۔ کیچ میں کربلا عموماً مئی میں ہوتا ہے چاہئے فدا احمد شہید کی شہادت ہو یا ساہجی کربلا یا ڈنوک کی عاسیب زدہ سیاہ رات۔مفادات جب اپنے جوبن پر ہوں تو کیا گرمی، کیا سردی، کیا دھوپ،کیا چھاؤں۔
آج یکم جون کو فدا شہید چوک ایک بار پر تاریخ رقم کر رہی ہے۔ ساہجی کربلا کے شہداء کا احتجاج بھی یہی پر یکم جون کو ہوا تھا۔ اس وقت بھی زورآور حلقوں سے یہی گزارش کی گئی تھی ظالمان کی پرورش بند کی جائے گوکہ یہ مطالبہ نہ تو واجہ مولابخش کی شہادت کے دن نیا تھا نہ آج ہے لیکن بقول شاعر
گوشے بی بی پہ اش کنگ ئا
طاقتور بھسینوں کی لڑائی میں نقصان غریب کی فصل کا ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا۔ آج پھر یکم جون کو کیچ نے ثابت کر دیا کہ وہ آج بھی اپنی روایتوں کی امین ہے۔ کرونا جو کیچ کے دونوں دروازوں تلار اور بالگتر سے لگاتار دستک دے رہا ہے اس کے خوف کو بالائے طاق رکھ کر عوام یکجاء ہوئی کیونکہ کرونا کا حملہ صحت پر ہے اور بلوچ کیلئے غیرت پر حملہ زیادہ شدید ہوتا ہے (صحت کا نظام ویسے ہی حالات نزع میں کئی سالوں سے ہے لہذا چُرت خلپیس)۔ یکم جون کو عوام نے کثیر تعداد میں جمع ہوکر احتجاج ریکارڈ کروایا جو شاید یکم جون 2016 کے احتجاج کے چار سالہ وقفے کے بعد ایک شدید اوربھرپور احتجاج تھا۔ 2016 میں جب ہم نے کیچ سیول سوسائٹی کی بنیاد رکھی اس وقت سماجی سوچ شدید خوف کی وجہ سے مفلوج تھی کہ سی ایس کے پلیٹ فارم سے سانحہ کوئٹہ کے وکلاء کیلئے جب ہم نے احتجاج کیا تو وہ ایک علامتی احتجاج تھا جو خوف اور گٹھن کا شکار سماج کیلئے ایک تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا۔ اس وقت سیاسی اور سماجی ماہرین کئی سالوں سے آئسولیشن میں تھے شاید کرونا سے کسی بڑے وباء کی وجہ سے۔ آج گوکہ تقاریر بہت سے دوستوں کے مطابق مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں تھیں لیکن جمود پر ایک کاری ضرب لگا گئیں۔ منتظمین اور عوام کے جوش کو سلام جو اس جون کی گرمی اور کرونا کے خوف سے کئی گنا زیادہ حرارت لیئے ہوئے تھی۔حکومت وقت کا تو پتا نہیں لیکن یہ احتجاج علامتی طور پر سیاسی جماعتوں کو ایک دورائے پر لا چکی ہے۔سیاسی جماعتیں جو اپنی جیت سے بھی دست بردار ہو جاتی ہیں، سیاسی جماعتیں جو اپنے سیاسی حقوق کی حفاظت نہیں کرسکتیں، کو اس آئسولیشن سے نکل کر عوامی حقوق کی حفاظت کرنی ہوگی۔ ابھی یا کبھی نہیں یہ ایک اچھا موقع ہے اپنی بقاء کیلئے متحد،منظم ہو کر جدوجہد کرنے کیلئے اگرنہیں کرسکے تو نسوارفروشی بھی وباء کے دنوں میں نہیں ہو سکے گی۔

*اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک*
*اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے*