|

وقتِ اشاعت :   June 2 – 2020

اللہ تعالی قرآن شریف فرماتے ہیں ”ہر ذی روح نے موت کا مزہ چکھنا ہے“
دنیا میں جتنے بھی لوگ تشریف لا چکے ہیں۔ اور جو لوگ روبہ حیات ہیں اور جنہوں نے دنیائے فانی میں تشریف لانا ہے۔ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے زندگی کے اختتام پر ایک پیالے میں جام پلانا ہے۔اور اس کا مزہ ہر ذی روح کو ضرور چکنا ہے۔ اس کو چکتے ہی انسان دنیا سے آخرت کی جانب منتقل ہو جاتا ہے۔حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر آخرت تک جتنے بھی لوگ اس دنیا میں تشریف لائے، ایک نہ ایک دن اس دارالفانی کو چھوڑنا ضرور ہے۔ہر روز دنیا میں آدم علیہ کے بچے تشریف لاتے ہیں اور روزانہ عزرائیل علیہ السلام اللہ کے حکم کے مطابق لوگوں کی روح قبض کرتا رہتا ہے۔

سورہ رحمان کی آیات نمبر 24 میں اللہ تعالی فرماتا ہے ”زمین پر جو ہے سب فنا ہونے والا ہے“
لیکن اس مختصر سی زندگی میں کچھ لوگ اپنے نیک اعمال سے لوگوں کے دلوں میں مرنے کے بعد بھی زندہ اور جاوید رہتے ہیں۔ان کی خدمات کے بدولت ہی جب وہ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو ہزاروں لاکھوں لوگوں کو غمزدہ کرتے ہیں۔اور وہ خلا ء جو رہ جاتی ہے مدتوں پر نہیں ہوسکتی۔پشتو زبان کے صوفی شاعر رحمان بابا اپنے شعر میں کہتے ہیں۔

چی۔ دستار۔ تڑی۔ ہزار دی
خود دستار سڑی پہ شمار دی

رحمان بابا کہتے ہیں کہ دستار تو ہزاروں لوگوں نے سر پر باندھ رکھا ہے لیکن دستار کی اہلیت قابلیت رکھنے والے لوگ گنے چنے ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر علامہ اقبال نے صاحب دستار کے اوصاف اپنے شعر میں بیان کئے ہیں۔

نگاہ بلند،سخن دلنواز، جان پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے

صاحب دستار بلند اوصاف کے حامل لوگ شمع کے مانند بزم کو روشن کرتے ہیں۔جب وہ شمع بجھتی ہے تو کچھ عرصے میں اندھیرا چھا جاتا ہے۔شمع سے فیض یاب ہونے والے لوگوں کو کچھ عرصے بعد احساس ہوتا ہے کہ وہ کن اندھیر راہوں میں بے سہارا رہ

گئے ہیں۔ پھر انہیں شمع کی یاد ستانے لگتی ہے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

سید فضل آغا 1948 میں بلوچستان کے پسماندہ ضلع پشین کلی عاجزی، سید کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے مرحوم حاجی عبدالغنی کے ہاں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم پشین اور کوئٹہ میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لئے پشاور کا رخ کیا۔ انجینئرنگ کی ڈگری مکمل کر کے پیشہ ملازمت سے وابستہ ہوئے لیکن کچھ عرصے بعد ملازمت کو خیرباد کہا۔اس زمانے میں پشین جیسے پسماندہ ضلع میں اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان کا ہونا باعث نعمت تھا۔آغا صاحب نے سیاست میں آنے کا ارادہ کیا اور دو مرتبہ سینیٹرز کے عہدہ پرفائز ہوئے۔ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بھی رہے۔ 1999 میں گورنر کی سیٹ پر براجمان ہوئے۔ اور 1997 میں وزیراعظم کے معاون خصوصی رہے۔زندگی کے آخری سیاسی سفر میں علماء کرام کے صف میں شامل ہوئے۔ اور جمیعت علماء اسلام کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری کے عہدے پر براجمان ہوئے۔ 2018 کے انتخابات میں پشین پی پی تھری کے حلقے سے جمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے عوامی قوت کے ذریعے بلوچستان اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔

فضل آغا چونکہ قومی سطح کے سیاستدان تھے۔ اس لیے وسیع نظر شخصیت کے حامل تھے۔ وہ قومی تنگ نظری قوم پرستی اور فرقہ پرستی سے بالاتر سوچ کے مالک تھے۔سید فضل آغا چونکہ عام روایتی سیاستدانوں کی طرح نہیں تھے جو تھوڑا سا کام کرکے اس کا واویلا شروع کرتے ہیں بلکہ آغا صاحب کے بلوچستان اور بالخصوص پشین کے حوالے سے بے انتہا خدمات ہیں جو عوام کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ چونکہ آغا صاحب خاموشی سے کام کرنے کے عادی تھے اور واویلا سے گریز کرتے تھے۔ اس وجہ سے آغا صاحب کے دنیا سے جانے کے بعد لوگ آغا صاحب کی خدمات سے پوری واقفیت نہیں رکھتے۔ اگست 1999 میں جب آغاز صاحب نے گورنر کی حیثیت سے حلف لیا تو گورنر ہاؤس کے دروازے بلوچستان کی عوام کے لیے کھول دیے گئے۔ بدقسمتی سے گورنر شپ کا زمانہ بہت مختصر تھا۔جس کی وجہ سے عوام صحیح معنوں میں ان سے مستفید نہ ہوسکی۔انتقال سے کچھ عرصہ پہلے جب پی ٹی وی بولان کے اینکر نے ضلع پشین میں گیس کے حوالے سے سوالات کئے۔اس کے جواب میں آغا صاحب نے کہا۔7-5 پلان کے تحت میں نے پشین مستونگ کو گیس،توبہ اچکزئی اور خاران کو بجلی،ڈبخانزی،کلی عبداللہ کے روڈ منظور کیے ہیں۔

1997 میں پشین سے بندخوشدل خان کے راستے حاجیزئی سیدان تگ 40 گاؤں کو گیس کی فراہمی کی منظوری آغا صاحب کی کوششوں سے ہوئی اور پشین سے حرمزئی تک 16 کروڑ روپے کی لاگت سے دوسری لائن بھی منظور کی گئی۔گورنر شپ کے زمانے میں پشین کربلاسے ہوتے ہوئے حرمزئی تک اس روڈ کی منظوری آغاکی مرہون منت ہے۔آغاصاحب پشین کو ایک ماڈل ضلع بنانا چاہتے تھے اس حوالے سے پشین کے سابق ڈی سی اورنگزیب بادینی کے ساتھ مختلف منصوبے بنا چکے تھے لیکن کرونا وائرس جیسے موذی مرض نے آغا صاحب کو اپنے چاہنے والوں سے جدا کردیا۔آغاصاحب کے پشین کے باسیوں پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ضلع کے لوگوں کو امن کے ساتھ رہنے میں کردار ادا کیا۔پشین کے ساتھ ضلع میں امن وامان کا فقدان قبائلی تنازعات اور قتل و غارت نے پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ان کی خدمات کی وجہ سے ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔20 مئی کو ان کی روح پرواز کر گئی اور وہ جہان فانی سے رخصت ہوئے، ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں پرنم آنکھوں کے ساتھ کلی حاجیزئی سیدان میں سپردخاک کردئیے گئے۔ آغا صاحب کے جنازے میں بلوچستان کی سیاسی قیادت قبائلی رہنماؤں اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شرکت کی۔