|

وقتِ اشاعت :   June 3 – 2020

میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا آخر بلوچستان میں یہ سب کچھ کیسے ممکن ہو گیا۔ آخر بلوچستان حکومت کو فقیر کے ایک تعویز نے راتوں رات دبئی کے مد مقابل آ کھڑا کر دیا۔ پاکستان کے تمام صوبے، شمالی علاقہ جات،سندھ، کے پی کے اور پنجاب فقیر کے تعویز سے کیسے محروم رہ گئے تھے۔ آخر اتنا بڑا فقیر بلوچستان حکومت کے کیسے ہاتھ لگ گیا جس نے بلوچستان کی قسمت کو راتوں رات بدل دیا اور چار چاند کے بجائے چودھویں کے چاندوں سے سجا دیا۔پنجاب سندھ شمالی علاقہ جات اور کے پی کے کے لوگ اپنی جگہ مگر دنیا کے گورے چٹے لوگوں نے بھی بلوچستان کا رخ کیا تھا۔

کئی ترقی یافتہ ممالک کے لوگ دن دھاڑے بلوچستان کا ویزہ سسٹم لینے کے لیے ترس رہے تھے اور بلوچستان میں شفٹ ہونے ہونے کیلئے بیقرار تھے۔ آخر بلوچستان حکومت کی قسمت کیسے ایک فقیر کے تعویز نے بدل دی تھی یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ بلوچستان سے نکلنے والی گیس کی مد میں آنے والی ساری رقم بلوچستان کی سڑکوں اور تعلیم پہ خرچ ہونے لگی تو بلوچستان کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں تین ماہ میں مکمل ہوگئے۔ بلوچستان حکومت نے سڑکوں کا ایسا جال بچھایا کہ ایک بھی سڑک پہ حادثہ نہیں ہوتا تھا یہ سب فقیر کے تعویز کی بدولت ممکن ہوا جس نے بلوچستان کو تنزلی سے ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا تھا۔

بلوچستان حکومت نے فقیر سے ایک تعویز ریکوڈک اور سیندک کے منصوبے کے حوالے سے لی تو ریکوڈک اور سیندک کے منصوبے اتنی ترقی کرگئے کہ بلوچستان کے جیب میں ڈالروں کے حساب سے رقم ملنی شروع ہوگئی تھی پھر پورے بلوچستان کے ہر ضلع میں انہی پیسوں سے ایک یونیورسٹی قائم ہونے لگی تھی۔ حکومت بلوچستان نے تعلیمی اداروں میں بہتری کے لیے ایک تعویز فقیر سے لی تو بلوچستان کے تمام تعلیمی اداروں نے اتنی ترقی کی کہ دنیا بھر کے طالب علم بلوچستان کا رخ کرنے پر مجبور ہوگئے، ہر شہر میں ایک کالج قائم کر دیا گیا تھا اور ہر گاؤں میں آبادی کے لحاظ سے ایک ہائی اسکول بنا دیا گیا تھا اور ان سکولوں میں اتنی نوکریاں دی گئیں کہ بلوچستان کے لوگ ان نوکریوں سے بے زار ہو گئے تھے اور کوئی بندہ ٹیچر بننے کو تیار نہ تھا۔

بلوچستان حکومت نے ایک تعویز بلوچستان پولیس کے لیے لی تو بلوچستان پولیس دنیا کی بہترین پولیس بن گئی تھی بلوچستان حکومت کاگزارہ اس فقیر کے تعویزوں پر ہونے لگا تھا۔بلوچستان کو اتنی ترقی کی راہ پر دیکھتے ہوئے کراچی کے لوگوں نے سندھ حکومت سے پرزور مطالبہ کیا کہ ہم پہلے بھی بلوچستان میں شامل تھے۔ اب بھی بلوچستان میں شامل کیا جائے کیونکہ مائی کولاچی بلوچ تھا۔۔۔۔انہی کے نام سے منسوب شہر کراچی کو بلوچستان میں شامل کیا جائے۔۔۔۔لیکن بلوچستان حکومت نے یہ کہہ کر ٹال مٹول کر دیا کہ ہم سے اس ملک کا رقبے میں سب سے بڑا صوبہ سنبھالا ہی نہیں جاتا تھا تو فقیر کے تعویز پہ سنبھالا ہوا ہے۔

ہم کراچی کو کیسے سنبھالیں گے۔ پہلے ہی ہم نے بہت دکھ دیکھے ہیں،اب اللہ تعالیٰ کا لاکھ شکر ہے کہ فقیر کی دعا سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوگئے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ کل دوبارہ فقیر کی بد دعا سے تنزلی کی جانب چلے جائیں لہذا بلوچستان حکومت نے سندھ حکومت سے معذرت کر دی۔بلوچستان حکومت نے فقیر کے تعویز کی بدولت ہسپتالوں کو بہتری کی جانب گامزن کر دیا تو بلوچستان کی سر زمین پر ایسے ہسپتالوں کا جال بچھا دیا گیا تھا کہ ان ہسپتالوں میں جگر ٹرانسپلانٹ سے لیکر ہزاروں نئے امراض کا علاج ممکن ہوگیا تھا۔ابھی تک فقیر کے تعویز رنگ لا رہے تھے۔

حتیٰ کہ بلوچستان کے پیرا میڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹر کام کرکر کے تھک جاتے تو انہی ہسپتالوں میں آرام فرمانے لگ جاتے تھے پہلی بار اتنی سہولیات دیکھ کر دنیا کے لوگ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بلوچستان کی طرف دیکھ رہے تھے مگر بلوچستان حکومت نے دنیا بھر سے آنکھیں ملانا بھی گوارہ نہیں کیا اور فقیر کے تعویز نے صوبہ بلوچستان کو ترقی کاسفر رکنے نہیں دیا۔بلوچستان حکومت نے ایک ایسا تعویز فقیر سے لیا کہ جس کی بدولت بلوچستان حکومت نے کرونا وائرس کا ویکسین تیار کر لیا۔ یہ ویکسین بلوچستان کے عظیم ڈاکٹر حضرات پہ چیک کیاگیا تجربہ کامیاب ہوا تو چائنہ میں جب دوبارہ کرونا کی وباء پھیلی تو چائنہ کے ڈاکٹروں نے بلوچستان حکومت سے مدد کی۔

اپیل کی اور پھر بلوچستان حکومت نے ڈاکٹروں کی ٹیم چائنہ روانہ کی جنہوں نے دس دنوں میں کرونا وبا کو کنٹرول کر لیا تھا۔ بلوچستان کے عظیم ڈاکٹر حضرات بلوچستان واپس آ گئے تو ان پر پھول نچھاور کرنے لگے ڈاکٹر حضرات نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب کچھ فقیر کی تعویز سے ممکن ہوا ہے سب لوگ فقیر کی تلاش میں لگ گئے آخر بلوچستان حکومت کو ایسا فقیر کہا ں سے ہاتھ لگ گیا ہے جس کے پاس ہر مرض کا علاج ہے۔بلوچستان حکومت نے پھر لاکھوں لوگوں کو بیل پٹ بھیج دیا جہاں پر انہی لاکھوں لوگوں نے بھاگ ناڑی کے بنجر زمین کو آباد کرنا تھا۔ فقیر نے ایک تعویز بیل پٹ کی کامیابی کے لیے بھی دیا۔

پھر کیا تھا بیل پٹ نے جلد کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے جہاں پر ہر قسم کے پھل، سبزیاں،گندم،چاول، سرسوں اور کپاس کی فصلیں پیدا ہونے لگیں، ہر بلوچستان کا باسی خوشحال ہونے لگا بلوچستان میں کسی کے پاس پیسے کی کوئی کمی نہ تھی۔بلوچستان کے باسیوں نے اتنی خوشحالی کبھی نہیں دیکھی جتنی ان دنوں میں دیکھ رہی تھی جو کچھ ہو رہا تھا سب فقیر کی تعویز کی بدولت۔۔۔حکومت بلوچستان نے ایک تعویزکوئلہ کی ترقی کے لیے لیا تو پھر بلوچستان سے نکلنے والا کوئلہ لاکھوں ٹن کے حساب سے ہر روز سندھ اور پنجاب کے ریلوے اسٹیشنوں پر بھیجا جا رہا تھا جس سے ان صوبوں کے ریل کا نظام اور بجلی کا نظام چلنے لگا تھا اور اسی کوئلے سے ان لوگوں نے فیکٹریاں بھی چلانا شروع کر دیں۔ ایسے ہوتی ہے ترقی ایسے ہوتے ہیں فقیر جو ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کو لٹل پیرس کا درجہ دینے کے لیے حکومت بلوچستان نے فقیر سے ایک تعویز لی تو امریکہ برطانیہ عرب ممالک اور خلیجی ریاستوں سے وزیراعظموں کا قافلہ کوئٹہ پہنچ گیا جنہیں ریسیو کرنے کیلئے پہلی مرتبہ وزیر اعلیٰ کے چند نوکر شوکر پہنچ گئے تھے، نہ کوئٹہ کے روڑ بند ہوئے نہ ٹریفک بند ہوا۔ جدید ریلوے کے ذریعے قافلہ ریلوے اسٹیشن سے سیدھا گورنر ہاؤس پہنچ گیا۔ ان لوگوں نے بلوچستان کی ترقی دیکھ کر بلوچستان کے لوگوں کا ویزہ سسٹم اپنے ممالک میں فری کر دیا تاکہ بلوچستان کے باسی ان ممالک میں بھی ترقی کی راہیں کھول سکیں۔

جب ان ممالک کے سربراہان نے ترقی کا راز پوچھا تو وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہم نے فقیر کی تعویز کے ذریعے ترقی کی ہے قریب بیٹھے ایک پینٹ شرٹ والے شخص نے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔سب ممالک کے سربراہان فقیر کی جانب دیکھنے لگے مگر فقیر تھا کہ کسی کو ہاتھ ملانا بھی گوارہ نہ کرتا تھا۔بلوچستان کے شہر گوادر کی ترقی کا سفر رک گیا تو حکومت بلوچستان نے پھر فقیر سے ایک تعویز طلب کرلی۔تعویز کے بعد گوادر نے اتنی ترقی کی کہ وزیراعظم پاکستان نے اسلام آباد کے بجائے گوادر میں اپنا ہاؤس قائم کرنے کا حکم صادر فرما یا۔۔پھر گوادر میں صدر اور وزیراعظم کے ہاؤس کے دروازے عوام الناس کے لئے کھول دیئے گئے مگر عوام الناس کے پاس اتنا وقت کہاں تھا کہ ان سے ملنے جائیں، سارا دن کام کام صرف کام میں لگے ہوئے تھے۔ فقیر کے تعویز نے ہر شخص کو روزی روٹی پہ لگا دیا تھا۔

بلوچستان کے تمام شہریوں کوحکومت بلوچستان نے ایک جیسے گھروں کے ڈیزائن کا نقشہ بنا کر دیا جس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو زنداں میں ڈال دئیے جانے کاحکم بھی سنا دیا۔ گھر بنانے کے لیے اگر پیسے کم ہوتے تو حکومت بلوچستان ان کو آسان اقساط پر بغیر کسی سودی نظام کے قرض مہیا کرنے کا پابند تھا بلوچستان میں نئے گھروں کی تعمیر کے لیے فقیر نے ایک تعویزدی تو صرف تین ماہ کی مدت میں تمام گھر مکمل کرلیے گئے۔بلوچستان کے ہر کالونی میں ایک سیول ڈسپینسری بھی قائم کر دی گئی اور ساتھ میں ہر دو ہزار کی آبادی کے شہر میں ایک سول ہسپتال بھی مکمل کر دیا گیاتھا یہ سب کچھ فقیر کی تعویزوں سے ممکن ہو رہا تھا۔

فقیر کی تعویز نے بلوچستان کے اسکول کا سسٹم ایسا بنا دیا کہ ہر دس بچے کے لیے ایک استاد مقرر کر دیا گیا جب کہ مسجد اور مندر کے لئے بھی ایک استاد مقرر کر دیا گیا تھا جو ان کو اپنے اپنے دینی تعلیم سے بھی آراستہ کرنے میں مشغول تھے۔ بلوچستان کے بے روزگار لوگوں کو روزگار گھروں پر پہنچ رہا تھا تاکہ کوئی بھی شخص بیروزگار نہ ہو۔ بلوچستان کا ہر باسی فقیر کی تعویزسے چائنیز اور انگریزی زبان پر عبور رکھنے لگا،گھروں میں بھی چائینیز اور انگریزی زبان بولی جاتی تھی۔پوری دنیا حیران تھی کہ آخر بلوچستان نے کس طرح فقیر کی تعویز سے بم دھماکوں پر قابو پا لیا ہے اور کس طرح پورے بلوچستان سے ہتھیاروں کا مکمل خاتمہ کر دیا گیاہے۔ اب تو بلوچستان کے وزیر اور سرداروں کا نام و نشان تک نہیں تھا سب کچھ فقیر کا تعویز کر رہا تھا بلوچستان کی تاریخ بدل چکی تھی بلوچستان دنیا کے نقشے پر ایسا ابھرنے لگا کہ تمام ممالک نے بلوچستان کو سلام پیش کرنا شروع کر دیا تھا۔

بلوچستان حکومت نے فقیر سے ایک تعویز رشوت کے خاتمے کے لیے لیا تو پورے بلوچستان کے رشوت دینے اور لینے والوں ختم ہو گئے تھے فقیر کی تعویز سے پورے بلوچستان کے لیے بجلی گیس فری کردی گئی تاکہ اپنے خزانوں سے حاصل چیزوں سے مستفید ہو سکیں حتیٰ کہ فقیر کی تعویز سے پورے بلوچستان کے بجلی اور گیس کے میٹر سے بھی فری کر دئیے گئے تھے اور حکومت بلوچستان نے وہ میٹر دیگر صوبوں میں اونے پونے داموں بیچ دیئے تاکہ ترقی کے سفر میں میٹر رکاوٹ نہ ہو۔فقیر کی تعویز سے پورے بلوچستان میں اب مزید ترقی کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔

مگر پھر بھی حکومت بلوچستان نے فقیر سے ایک تعویز بلوچستان کے سائنسدانوں کیلئے مانگ لیا تاکہ سائنسدان چاند پر پہنچ کر فائیو جی کے ٹاورز لگا دیں تاکہ موبائل سگنل کا کبھی پرابلم نہ ہو پھر فقیر نے ایک ایسا تعویز دیا کہ موبائل بغیر ٹاورز کے چلنے لگ گئے۔ فقیر کے تعویز کی وجہ سے پورا بلوچستان اتنی ترقی کا سفر طے کر رہا تھا کہ ان کا ذکر کتابوں میں بھی چھپنے لگ گیا تھا اور تو اور فقیر کے ایک تعویز سے دنیا کی نمبر ون یونیورسٹی کادرجہ بلوچستان یونیورسٹی کو مل گیا تھا۔ بلوچستان کے ڈگری یافتہ نوجوان کبھی بے روزگار نہیں ہوتے تھے ایک ہاتھ میں انکے ڈگری ہوتا تھا تو دوسرے ہاتھ میں نوکری کے آرڈر ہوتے تھے بلوچستان میں کوئی بھی مزاحمت کار فقیر کے تعویز کی بدولت نہیں رہا تھا۔ بلوچستان دنیا کا واحد صوبہ تھا جہاں فقیر کے تعویز سے پورے بلوچستان میں سو فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہوگئے تھے۔

نوٹ یہ تحریر فقیر نے مطالعہ پاکستان کی کتاب دوہزار اسی 2080ء کے لئے لکھی ہے اس تحریر کے جملہِ حقوق حکومت بلوچستان نے اپنے پاس الماری میں محفوظ رکھ دیئے ہیں جب بلوچستان اس طرح ترقی کی سیڑھیاں عبور کرے گا تو دنیا میں یہ تحریر پیش کی جائے گی۔ اس تحریر کی کاپی پیسٹ یا تنقید کرنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں ہوگی کیونکہ اگر ترقی کا سفر کہیں رکا تو وہ شخص اس کاذمہ دار ہوگا۔