ہمارے ملک میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جوکہ ڈاکٹرز (مسیحاؤں)کے ساتھ سرے عام موت کے کاروبار میں ملوث ہیں جہاں چند پیسوں کے عوض انسان جیسے اشرف المخلوقات کی زندگیوں سے گھناؤنا کھیل کھیل کر انہیں موت کی وادی میں دھکیلا جارہا ہے اور یہ منافع بخش اور جان لیواکاروبار پوش علاقوں کے علاوہ اندرون صوبہ اور مقامی سطح پر ڈاکٹرز اور میڈیکل ریپ والوں کی ملی بھگت سے جاری ہے۔اور کیوں نہ ہو جس معاشرے میں انسانی زندگی کی کوئی قیمت نہ ہو، جہاں حیوان اور انسان میں کوئی چیز مشترک شمار نہ کی جائے، جہاں خدمت خلق محض کتابی باتیں لگنے لگیں۔
جہاں انسان کی قیمت چند ٹکوں کے بھاؤ بیچا جائے،جہاں غریب اور امیر کیلئے الگ الگ قانون ہو، جہاں انصاف خود خون کے آنسو روئے اور انصاف کی راہ تکتا رہے،جہاں مقتول کو معلوم نہ ہو کہ اسے کس نے اور کیونکر مارا، جہاں عدالتیں اور انصاف کی بولیاں لگ جائیں،جہاں فیصلوں کیلئے پیسوں کی قیمت مقرر کی جائے، جہاں عبادتیں محض رسم سمجھ کر ادا کی جائیں اور توقع کی جائے کہ ہمارے حالات ٹھیک ہوں گے تو ایسے معاشروں پر قہر الٰہی غضب بن کر ٹوٹتا ہے۔ہم ایک ایسے بے حس معاشرے میں جینے کے عادی ہوگئے ہیں جہاں انسانی زندگی کی کوئی قیمت نہیں۔
لاقانونیت عروج پر ہے امیر اور غریب کیلئے طبقاتی نظام عام بن چکا ہے، کاروبار میں منافع انسانی قیمت کی صورت بن چکا، بیمار مریضوں کا علاج کرنے والے مسیحاآج کل پیسوں کے پیچھے ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے نظر آتے ہیں اور میڈیکل اسٹورز پر انکے نام کی پرچی اور پرسنٹیج کے نام پر انسانی جانوں کو پیسوں کے عوض بیچا جارہا ہے۔ میڈیکل اسٹورز پر ڈاکٹرز کی پرچی کے نام پر ایسے ادویات لکھ دی جاتی ہیں جو دو نمبر کے بجائے چار نمبر اور لوکل کمپنیوں کی ہوتی ہیں جن کی قیمتیں ہزاروں میں ادا کرنے والے اس سفید پوش بوڑھے والد کو ہی معلوم ہوگا جو تپتی دھوپ میں ریڑھی لگاکر خون پسینے کی کمائی سے بھی شام تک بمشکل دوتین سو کماتا ہوگا۔
جسکے گھر کا چولہا ایک وقت ہی جلتا ہوگا لیکن جب ان ادویات سے بھی بیٹے،جو بڑھاپے کا سہارا ہے، کامرض ختم نہ ہو اور بڑھتا ہی جائے اور نوبت یہاں تک آئے کہ وہ لاچار شخص اپنے ناتواں ہاتھوں سے اپنے جوان اولاد کی لاش کو شہر خموشاں لے جاکر منوں مٹی تلے دفن کردے تو یقینا انصاف کے متلاشی ایسے شخص کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو ہمارے بے حس معاشرے اور موت کے سوداگروں کے لئے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہونگے کہ اللہ تعالیٰ ضرور ان سے حساب لے گا، وہاں دیر ہے اندھیر نہیں کیونکہ حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک انسان کاقتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔
راقم الحروف پچھلے دنوں اپنے کسی قریبی عزیز کو شدید کرب کی حالت میں ایمرجنسی کی صورت میں کوئٹہ لے کر گئے جہاں سرکاری توکجا پراہویٹ ہسپتالوں میں بھی فرنٹ لائن کا کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر حضرات کی اکثریت کرونا کے خوف سے گھروں میں مقید یا خوف کے عالم میں آئسولیٹ ہوچکے ہیں۔ قصہ یہی ختم نہیں ہوا تھا کہ دوسرے روزمیرے ڈھاڈر کے دوست معروف ٹرانسپورٹر محمد اسلم نے کال کرکے بتایا کہ انکے کسی عزیز بچے جسکی عمر تقریباً 12 سال ہوگی کوسنڈیمن ہسپتال کوئٹہ کے کسی مشہور ومعروف ڈاکٹر کی پرچی پر کوئٹہ کے سلیم کپلیکس میں کسی میڈیکل والے نے تقریبا ًساٹھ ہزار کی مختلف قسم کی انٹی بائیوٹک اور دیگر انجیکشنز اور ادویات دی ہے، یہ بھی بھلا ہو کسی جاننے والے ڈاکٹر کا جنہوں نے میڈیسن دیکھ کر حیرانگی کا اظہارکرتے ہوئے انہیں فوری منع کردیا کہ اگر انکااستعمال کیا گیا۔
تو بچہ موت کو گلے لگا لے گا۔یہ تو سماجی روابط رکھنے والے دوست کا واقعہ ہے ملک کے کئی دیہی اور شہری علاقوں میں ایسے واقعات کی طویل داستانیں سننے اور دیکھنے کو ضرور ملیں گے لیکن کیااس ملک میں ایسا کوئی قانون ہے جو ایسے موت کے سوداگروں کو لگام دیکر انسانیت کو موت کی وادی میں دھکیلنے سے بچائے اور مسیحائی کا اعلیٰ شرف پانے والے ڈاکٹرز کو عملی طور پرخدمت انسانیت کا شرف بخشے اور ملک اور خصوصاً کوئٹہ میں انہیں خدمت انسانیت کے بدلے دعائیں سمیٹنے کا موقع عطا فرمائے۔۔
نوٹ۔۔میری یہ تحریر تمام شعبہ طب سے تعلق رکھنے والوں کیلئے نہیں، ان کیلئے ہے جو انسانی موت کے کاروبار میں ملوث ہوکر آخرت اورابدی زندگی کو بھلاکر دنیا کی چکا چوند رنگینیوں میں گم ہوکر انسانیت کو زندہ درگور کررہے ہیں۔