|

وقتِ اشاعت :   June 6 – 2020

کرونا وائرس کے منظر عام آنے پر بلوچستان میں محکمہ صحت کی ہسپتالوں میں سہولیات کا پول کھل گیا ہے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو جب بیمار ہوئے تو علاج کے لیے سرکاری ہسپتال گئے،علاج تو اپنی جگہ موصوف کو چوہوں نے سونے نہ دیا۔جب اسپیکر صاحب کے ساتھ یہ رویہ رکھا گیا تو عام مریضوں کی کیا حالت ہوتی ہے اس کا اندازہ سب کو ہے۔ اس وقت ملک میں کرونا آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے کرونا مریض پریشان ہیں چوتھا مہینہ شروع ہے لیکن ڈویژن کی سطح پر ٹیسٹ شروع نہیں ہو سکے ہیں۔ شروع کے دنوں میں جاری فنڈز کو ٹھکانے لگانے کے لیے راشن تقسیم، میونسپل کمیٹیز نے اسپرے کے ڈرامے کیے۔ مولویوں نے اذانیں دیں۔اب جب کرونا عروج پر ہے بلوچستان حکومت خاموش اور میونسپل کمیٹیز بھی خاموش ہو چکی ہیں۔

کرونا نے سوچا ہو گا غریبوں کو پکڑ رہا ہوں میری کوئی عزت نہیں کر رہا چلو ایوانوں اور بیوروکریسی میں داخل ہوکر دیکھتے ہیں شاید وزیراعظم، گورنر، وزراء اعلیٰ وزراء، اراکین،جج،جرنل بیدار ہو جائیں۔اب کرونا نے ہلچل مچا دی ہے۔ وزراء، اراکین اسمبلی، آفیسرز کرونا میں مبتلا ہو رہے ایک دو مر بھی گئے مزہ تب ہو، جب ان کو وینٹی لیٹر نہ ملے ہسپتال میں تڑپیں، شاید احساس ہو۔ ساٹھ سالوں میں محکمہ صحت کو بہتر کیوں نہیں بنایا گیا، قدرت کی لاٹھی بے آواز ہے کرونا کی وجہ سے یہ علاج کرانے بیرون ملک نہیں جا سکتے کیونکہ پہلے نزلہ یازکام کے لیے بھی بیرون ملک بھاگ جاتے تھے۔

آج اگر بلوچستان میں محکمہ صحت فعال ہوتا، محکمہ حیوانات نصیرآباد کے درجہ چہارم کے ملازم نبی بخش مستوئی جو خود کینسر میں مبتلا ہے جس کاعلاج چل رہا ہے دو آپریشن ہوچکے ہیں اس کی بیوی کا علاج برادری کے تعاون سے آغا خان ہسپتال میں چل رہا ہے۔ عید کے دوسرے دن سے داخل ہے بارہ لاکھ سے زائد خرچہ ہو چکا ہے گھر بار بھی فروخت ہو چکا ہے جب کرونا کسی وزیر،اراکین اسمبلی،بڑے آفیسر کو پکڑتا ہے نبی بخش کے منہ سے یہ آہ نکلتی ہے اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے بلکہ اب کرونا نے اصل راستہ تلاش کیا ہے لیکن کرونا بھی ہمارے قانون کی طرح ہے سفارش اور پیسے کو جلد مان لیتا ہے۔ وزراء، اراکین اسمبلی، جج، جرنیل سے ڈر کر جلد بھاگ جاتا ہے جبکہ غریبوں کو جلد ماردیتاہے جس طرح سے ساٹھ سالوں سے سیاستدان،جج،جرنیلوں نے عوام کو مفلوج بنا کر رکھا ہے روز حشر میں ضرور ان سے حساب کیا جائے گا۔