|

وقتِ اشاعت :   June 9 – 2020

پچھلے دنوں امریکہ میں ایک سیاہ فام شخص “جارج فلویڈ” کو امریکن پولیس کے ایک بے رحم اہلکار نے بڑی بیدردی سے قتل کردیا۔ اس کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ وہ سیاہ فام (افریقن امریکی شہری) تھا اس کے گردن کو امریکی پولیس اہلکار نے تقریباً آٹھ منٹ تک اپنے گھٹنوں سے دبائے رکھا اور دبانے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ جارج فلویڈ پولیس اہلکار کی منت سماجت کرتا رہا کہ میرا دم گھٹ رہا ہے، مجھے چھوڑ دیں لیکن امریکی پولیس اہلکار کو ذرہ بھی رحم نہیں آیا حتیٰ کہ جارج فلویڈ اپنی آخری سانسیں گننے لگا تو پولیس اہلکار نے اسے چھوڑ دیا۔ جب اسے ہسپتال لے جایا گیا تو وہ اپنی جان کی بازی ہار گیا۔

اس سے بھی دلخراش بات یہ تھی کہ جب ایک پولیس اہلکار نے جارج فلویڈ کو گھٹنوں سے دبائے رکھا ہوا تھا تو اس کے تین ساتھی اہلکاروں نے لوگوں کے اجتماع کو قریب نہ آنے دیا اور یوں جارج فلویڈ کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو ہر کوئی بے بس ہو کر دور سے دیکھتا رہا اور امریکی پولیس کی طرف سے یہ پیغام بھی محسوس کرتے رہے کہ تعصبی نسل پرستی پر مبنی امریکی پولیس اہلکار سیاہ فام شہری کے ساتھ کچھ بھی کرسکتے ہیں کیونکہ ان کی سوچ کے مطابق سیاہ فام غلام ابن غلام ہیں اور وہ غلام کو تو انسان ہی نہیں سمجھتے اور امریکہ تو جیسے صرف گوروں کی ملکیت ہو، جارج فلویڈ کی موت نے امریکہ میں ایک نیا طوفان کھڑا کردیا۔

جہاں اتنی شدت سے احتجاجی تحریکیں شروع ہوئی ہیں کہ مجبوراً وائٹ ہاؤس کی حفاطت کے لیے بڑی تعداد میں سیکیورٹی فورسز کو بلانا پڑا۔ ملک کے مختلف حصوں میں لاکھوں کی تعداد میں شہریوں نے روڈوں پر نکل کر جارج فلویڈ کے حق میں اور امریکی تعصبی نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کئے،مظاہرین اس بات کو بھی نظر انداز کیا کہ کورونا وائرس نے ان کے ملک میں لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا ہے اور کئی ہزار جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔سوشل ڈسٹینس کی پرواہ کیے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ملا کر اور احتجاجی پلے کارڈ اٹھا کر سیاہ فاموں سے یکجہتی اور نسلی تعصب کے خلاف احتجاج کرتے پائے گئے۔

اور کچھ احتجاج کنندگان نے تو شہریوں سے لوٹ مار شروع کردی اور یوں محسوس ہونے لگا جیسے ” لْوٹو تے پْھوٹو ” جیسی کہاوت خاص ان کے لیے بنا ہو، حالات کو اس قدر بے قابو پاکر امریکی صدر ٹرمپ نے مجبور ہوکر ٹویٹ کیا کہ ” اگر مظاہرین لوٹ مار کریں گے تو گولی کھائیں گے ” اس ٹویٹ نے مظاہرین میں لگی آگ پر جیسے پیٹرول چھڑک دی، مظاہرین نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ صدر ٹرمپ تشدد کو ہوا دے رہے ہیں۔اگر دیکھا جائے تو جارج فلویڈ کی موت نے اقوام متحدہ اور پوری دنیا کے حکمرانوں کو یہ پیغام دیا کہ وہ اس امریکہ کو پہچان لیں جوکہ عالمی امن کا ٹھیکیدار، آزادی اظہار رائے اور مہذب ہونے کا محض دعویدار ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور صدیوں سے جاری ان کے ہاں نسلی تعصب آج بھی جاری ہے جہاں آج بھی انسانیت کی نہیں بلکہ نسل اور رنگ کی قدر ہے۔

اب آتے ہیں بھارت کی طرف جو دنیا میں یہ باور کرا رہا ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت پسند ملک ہے جبکہ حالات وہاں بھی امریکہ سے مختلف نہیں ہیں اگر امریکہ میں نسلی تعصب ہے تو ہندوستان میں مذہبی تعصب، اگر بھارت کے موجودہ وزیراعظم مودی کو دنیا کا موجودہ سب سے بڑا دہشت گرد کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ مقبوضہ کشمیر کے حالات اس وقت پوری دنیا کے سامنے ہیں تقریباً پچھلے دس ماہ سے وہاں کرفیو نافذ ہے بھارتی ریاستی دہشت گرد فوج نے مذہبی تعصب کی بناء پر ہزاروں نہتے کشمیریوں پر چھرے والی بندوقوں سے فائر کرکے شدید زخمی جبکہ سینکڑوں کو شہید کردیا ہے۔

متعدد خواتین کی عصمت دری کی گئی ہے جن کا قصور محض اتنا ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور اقوام متحدہ کے فیصلے کی روشنی میں حق خود ارادیت دینے کا مطالبہ کررہے ہیں اگر خالصتان کی بات کی جائے تو وہاں پر اپنے جائز اور مذہبی حقوق نہ ملنے پر آزادی کی تحریک شروع کرنے والے جرنیل سنگھ برار المعروف سنت جرنیل سنگھ بِھنڈرانوالے جیسی عظیم شخصیت کو بھی 06 جون 1984 کو دربار صاحب گولڈن ٹیمپل امرتسر میں ساتھیوں سمیت ماردیا گیا،ان کے ساتھیوں میں بھارتی فوج کا ایک ریٹائرڈ جنرنیل بھی تھا اور ان سب کا قصور صرف اور صرف اتنا تھا کہ وہ ہندو نہیں بلکہ سکھ تھے۔

ِھنڈرانوالے کو جان سے تو مار دیا گیا لیکن وہ آج بھی خالصتان کے ایک عظیم رہنما مانے جاتے ہیں اور اس بار ان کی چھتیسویں سالانہ برسی کے موقع پر ہندوستانی ریاستی، دہشتگرد فوج ان سکھ برادری پر مزید ظلم کے پہاڑ ڈھانے کے منصوبے بنا رہی ہے، ان تمام واقعات سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ امریکہ اور ہندوستان کی سوچ کس قدر دہشتگردانہ ہے۔