|

وقتِ اشاعت :   June 9 – 2020

ملک میں ہر حکومت عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کا نعرہ لگا کر عنان اقتدار کے مسند پر فائز ہوتی ہے تو پھر وہ عوام کے مفادات کے برعکس فیصلے کرکے عوام کو مختلف ٹیکس اور مہنگائی کے عذاب میں مبتلا کر دیتی ہے۔ تہتر سالوں سے زائد عرصہ ہونے کے باوجود ملک کو ایماندار قیادت نصیب نہ ہوا اور نہ ہی کسی اچھے حکمران کو حکمرانی کرنے کا موقع دیا گیا۔ ملک میں جمہوریت اور آمریت کا کھیل کھیل کر جہاں ملک میں عدم ترقی ہوئی وہاں ملک میں سیاسی عدم استحکام بھی رہا، عوام نہ تو جمہوریت سے بہرہ مند ہوسکی اور نہ ہی آمریت کے ترقی کن نعرے سے مسحور ہوئی۔

پاکستان میں احتساب کا نعرہ لگا کر ہی کرپشن اور کمیشن مافیاز کو چھوٹ دی گئی بلکہ کرپٹ مافیاز کو بے ہنگم ملکی عنان اقتدار کے مسند پر فائز کیا گیا۔ہر دور حکومت میں کرپٹ اور چوروں کو تحفظ دیا گیا اور انہی کرپٹ مافیاز نے جہاں جمہوریت کو دغدار کیا وہاں احتساب کے عمل پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا۔ ملک میں دراصل احتساب کا نعرہ لگا کر کرپٹ لوگوں کو حکومتی عہدوں پر فائز کرنا ریت بن چکی ہے پاکستان میں آج تک کسی بھی حکومت میں منصفانہ اور بلا امتیاز احتساب کی کوئی ایسی بھی مثال موجود نہیں ہے۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں مسلم لیگ ن کے لوگوں پر کیسز بنائے گئے، نواز شریف کے دور میں پی پی پی کے لوگوں پر کیسز بنائے گئے۔

یہ سلسلہ چلتا رہا اور اس سلسلے کا اختتام مشرف کی آمریت میں میثاق جمہوریت سے کسی حد تک ختم ہوا تاہم مشرف نے پھر احتساب کے نام پر ڈرا کر سارے کرپشن کے شکاری لوگوں کو اپنے لشکر کا حصہ بنایا۔ ملک میں ایک خاص طبقہ تیار کیا گیاہے وہ ہر وقت اپنا سیاسی قبلہ تبدیل کرکے یا یوں کہیئے کہ وہ موسمی پرندے حکومتی پارٹی کا حصہ بن جاتے ہیں اور پھر پانچ سال وزیر مشیر بن کر پھر اگلے پارٹی میں جانے کیلئے بیتاب ہوجاتے ہیں اور یہ طبقہ ہمیشہ احتساب سے بچتا رہا ہے اور کرپشن کا بازار گرم رکھا ہے کیونکہ یہی سیاستدان کرپشن کرکے ملکی اداروں کو تباہی کے دھانے پر لا چکے ہیں۔

آپ موجودہ حکومت کے وزراء کو ہی دیکھ لیں ان میں کتنے پرانے پی ٹی آئی کے الیکٹڈ اراکین ہیں اتنے بڑے کابینہ میں چھ سات لوگوں کے سوا یہی لوگ ہمہ وقت اقتدار کے ہی مسند پر فائز ہوتے ہیں۔ کیا عوام ان وزیروں کے کردار سے واقف نہیں،کیا ان کی کرپشن کی تباہ کاریوں سے حکومتی یاخفیہ ادارے معلومات نہیں رکھتے۔پاکستان میں آج تک منصفانہ احتساب کی راہ میں کون سی طاقت سب سے بڑی رکاوٹ ہے؟ یقینا انہی طاقتورکرپٹ مافیاز کی بدولت آج پاکستان کی معیشت غیر مستحکم ہے پاکستان کے بعد آزادی حاصل کرنے والے ممالک چین اور کوریا کہاں پہنچ چکے ہیں۔

وہ دنیا کی بہترین معیشت کے مالک ہیں لیکن پاکستان آج تک آئی ایم ایف کے سہارے اور آکسیجن پر چل رہا ہے۔ ملک کے تمام ادارے آزادانہ ماحول میں کام نہیں کر رہے غرض پاکستان پر سوائے خدا کی مہربانیوں کے باقی سب ملکی خزانہ نوچنے میں مصروف ہیں۔ پاکستان کے اسٹیبلشمنٹ نے کبھی اس جانب توجہ دی ہے کبھی ان بہتر سالوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے کہ ملک کے کون سے لیڈر خیر خواہ ہیں اور کون ملک کے بنیادوں کو کمزور کر رہا ہے یعنی کون ملکی خزانہ لوٹنے میں مصروف ہے کیا ان کرپٹ لوگوں کا حکومتی اسکارڈ میں شامل ہونا ضروری ہے کہ وہ کرپشن کرکے ملکی اداروں کا حشر نشر کریں۔ اگر اس طرح کا عمل جاری رکھا گیا تو پاکستان کی ترقی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ ملک میں اچھے اور برے چور کے کانسیپٹ کو ختم کرنا ہوگا کرپشن چاہے۔

اچھا اور نیک نام کرے یا بڑا شخص وہ کرپٹ ہی کہلاتا ہے اب وقت آگیا ہے کہ سب کو ایک ہی نظر سے دیکھا جائے۔مسلم لیگ ن اور پی پی پی والے کرپٹ ہیں تو تحریک انصاف والے کیوں فرشتے ہیں۔ چور چاہے جس پارٹی کا ہو، اسے جب تک سزا نہیں ہوگی اس وقت تک ملکی ترقی کا عمل اسی طرح ہی رہے گا۔ آپ موجودہ ریاست مدینہ کی ایک جھلک دیکھیں حکومت نے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کرنے کے باعث پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا، ایک ہفتے سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ملک میں پیٹرول نایاب ہو چکا ہے کہاں گیا ریاست مدینہ کے سخت قوانین،کہاں گئے مافیاز کو ختم کرنے کے دعوے،کہاں گئے کرپٹ لوگوں کو سزا دینے والے حکمران؟ کیا پیٹرولیم کی قلت عمران خان حکومت کی رٹ چیلنج کرنے کے مترادف نہیں، کیا پیٹرولیم مافیاز نے حکومتی قیمتوں کی کمی کو ہوا میں نہیں اڑا دیا- کہاں گیا ریاست کا قانون جو غریب کے گریبان تک تو جلدی پہنچتا ہے۔

لیکن طاقتور کے آگے رکھیل بن جاتا ہے۔ وزیر اعظم نے پیٹرولیم کی قلت پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان منصوعی قلت پیدا کرنے والے پمپس کے لائسنس منسوخ کیئے جائیں گے لیکن نہ تو کسی پیٹرول پمپ کی لائنسس منسوخ ہوئی اور نہ ہی پیٹرول کی فراہمی شروع ہوئی، کیا ریاست مدینہ صرف نعروں اورعدوں اور تقریروں کیلئے بنایا گیا ہے جہاں شوگر مافیاز،گندم مافیاز سرکاری ادویات ہڑپ کرنے والے مافیاز،پیٹرولیم مافیاز ان کے ہی گود میں ہوں یا ان کو وزرات پر فائز کیا گیا ہو، عوام اس طرح کے حکمرانوں سے جو ریاست مدینہ کے دعویدار ہوں، سے ترقی اور حکومتی رٹ بر قرار رکھنے کی اور منصفانہ احتساب کی امید لگا سکتے ہیں۔

بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ سمیت پورے بلوچستان میں پیٹرول پمپ بند ہیں جن کے باعث غریب عوام خوار و تذلیل ہو رہی ہے ایک جانب کورونا وائرس کی تباہ کاریاں،دوسری جانب پیٹرولیم مافیاز کی حکومتی احکامات نہ ماننے کے باعث عوام پریشان ہیں۔وہاں ٹرانسپورٹ کے مہنگے کرایوں کے باعث عوام سفر کرنے کے ہی قابل نہیں۔ بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں آج تک کرایوں کا سرکاری سطح پر تعین نہیں کیا گیا ہے صوبے میں طاقتور ٹرانسپورٹ مافیاز اپنی مرضی کے کرایے وصول کرکے عوام کا خون نچوڑ رہے ہیں۔تیل کی قیمتوں میں چالیس روپے سے زائد کمی کے باوجود کرایوں میں اب ہوش ربا اضافہ کرکے عوام کی کمر توڑ دی گئی ہے۔کیا بلوچستان حکومت صرف سیکرٹریٹ تک حکومتی رٹ برقرار رکھی ہوئی ہے۔

کیا وہ صوبے میں ٹرانسپورٹ مافیاز کی ناانصافیوں پر ایکشن لینے کی جرات کر سکتی ہے۔ کیا صوبے میں پیٹرول کی منصوعی قلت پیدا کرنے والے پمپس کے خلاف ایکشن لینے کی ہمت کر سکتی ہے یقینا یہ سب نفی میں ہے۔ پیٹرول پمپس کے مالکان طاقتور لوگ ہیں وہ حکومتی رٹ کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے عوام ایک ہفتے سے زائد تیل کی عدم فراہمی کیلئے خوار ہو رہی ہے لیکن حکمران ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔جو حکومت عوام کو سہولیات میسر نہ کر سکے کیا وہ عوام پر حکمرانی کا حق رکھتی ہے لیکن یہ پاکستان ہے بابا جو چاہے کرے کچھ لوگوں کو خوش کرے باقی عوام کھڈے میں گرے یا خوار ہوں عوام کی آواز یا فریاد کون سنتا ہے۔

اور عوام کو کون پوچھتا ہے۔عمران خان کو پاکستان میں لانچ کرکے ملک کو ترقیاتی یافتہ بنانے والے اب کتنے خوش ہونگے یا مایوس اس کا اللہ ہی کو علم ہے۔ بہر حال عمران خان سے وابستہ عوامی توقعات زمین بوس ہو چکی ہیں اب وقت آگیا ہے کہ ملکی ادارے اور سیاست دان ایک نئے عمرانی معاہدہ کریں چور کو چور اور کرپٹ کو کرپٹ ہی قرار دیں اور کرپٹ کو سزا دیا جائے اور ملک میں بلا امتیاز احتساب کا آغاز کیا جائے۔

ملک میں عدالتی نظام کو بہتر کرکے بروقت اور فوری انصاف کی فراہمی کا آغاز کیا جائے۔ جس بھی معاشرے میں منصفانہ اور بہتر عدالتیں انصاف دیتی ہوں وہ قوم کبھی بھی عدم ترقی کا شکار نہیں ہوتی، ملک میں تمام مافیاز کا خاتمہ کیا جائے،قانون کی نظر میں ہر شہری کو برابری کے حقوق دیئے جائیں تو پھر پاکستان دنیا کی عظیم ترقیافتہ معیشت اور قائدانہ رول بھی ادا کر سکتا ہے بصورت دیگر ملک افراتفری،سیاسی عدم استحکام اور معاشی ابتری کا شکار ہی رہے گا۔