شاپنگ مالز کھل گئے، پبلک ٹرانسپورٹ بھی چلنے لگی، چھوٹی بڑی تمام مارکیٹس میں کاروباری سرگرمیاں بھی عروج پر پہنچ گئیں، بیرون ملک پاکستانیوں کی آمد کا سلسلہ بھی زوروں پر ہے، ملک بھر میں سیاحت کی اجازت کا حکم نامہ بھی آگیا، ٹرینوں کی تعداد میں بھی روز بروز اضافے کے فرمان جاری کئے جارہے ہیں لیکن تعلیمی اداروں اور کھیل کے میدانوں پر اب بھی ویرانی سی چھائی ہوئی ہے۔اس سے کوئی انکار نہیں کہ کرونا کی وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر دنیا کے سیاسی، معاشی اور سماجی نظام میں ایک بھونچال پیدا کردیا ہے۔
جس کے اثرات تا دیر دنیا پر مرتب رہیں گے لیکن اس گھمبیر اور مشکل صورتحال میں بھی آہستہ آہستہ دنیا کی رونقیں بحال ہوتی جارہی ہیں اور دنیا کے بیشتر ممالک میں تعلیمی اداروں اورکھیل کے میدانوں نے بھی اپنی سرگرمیاں شروع کردی ہیں جس طرح جرمنی میں فٹبال کی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں گو کہ اسٹیڈیم میں شائقین فٹبال کی آمد کو ممنوع قرار دیا گیا ہے، لیکن امید ہے کہ شائقین کے لئے بھی فٹبال کے یہ اسٹیڈیم بہت جلد کھول دئیے جائیں گے اور رواں مہینے میں ہی اسپین، انگلینڈ اور اٹلی میں بھی فٹبال کی سرگرمیاں بحال ہوجائیں گی۔
واضح رہے کہ یہ وہ ممالک ہیں کہ جو کرونا کی وبا سے بہت زیادہ متاثر ہوچکے ہیں۔ اب یہاں قارئین کے ذہنوں میں یہ بات ضرور گردش کررہی ہوگی کہ ان ممالک کے فٹبال اسٹیڈیم اور ہمارے گراؤنڈز۔۔۔۔۔؟ زمین آسمان کا فرق ہے بھائی۔۔۔۔۔!. وہاں کے انتظامی معاملات اور ہمارے حالات۔۔۔۔۔۔؟ بہت مشکل ہے۔۔۔۔۔! جی بالکل ٹھیک سوچ رہے ہیں آپ، لیکن اگر خلوص نیت کے ساتھ کوشش کی جائے توطریقہ کار یہاں بھی وضع کیا جاسکتا ہے بلکہ ان پر عملدرآمد بھی کیا جاسکتا ہے کہ جن کی روشنی میں ہم اپنے کھیل کے میدانوں کو دوبارہ آباد کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
اس تمام تر صورتحال میں ہمارے ملک میں جہاں مارکیٹس اور شاپنگ مالز میں عوام کا جم غفیر کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا، ٹرینوں اور بسوں میں بلا کا رش ہے لیکن شاہی فرمان ہے کہ تعلیمی ادارے اور فٹبال کے گراؤنڈز ہرگز نہیں کھولے جائیں گے کیوں کہ تعلیمی اداروں اور گراؤنڈز میں کرونا آجائے گا۔ اگر دیکھا جائے تو کسی بھی ملک کی ترقی کا رارومدار اس کے تعلیمی نظام پر منحصر ہوتا ہے، اور کسی بھی ملک کے عوام کی صحت کا راز کھیل کے میدانوں سے وابستہ ہوتا ہے،بقول ڈاکٹرز کے جہاں کھیل کے میدان آباد ہوں گے تو وہاں بیماریوں کا،تناسب نہ ہونے کے برابر ہوگا، لیکن ہمارے ملک کے حکمرانوں کی سمجھ میں شاید یہ بات نہیں آرہی۔
اسکول میں بچے کرونا کا شکار ہوجائیں گے لیکن یہی بچے سارا دن محلوں اور گلیوں میں گھومتے اور کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں اور غیر معیاری چیزیں بھی کھارہے ہوتے ہیں توکیا ان گلیوں اور محلوں میں کرونا اپنا کمال نہیں دکھا سکتا۔۔؟ کیا بچے اپنے اسکولز کے صاف ستھرے ماحول میں ایس او پیز پر عمل کرکے زیادہ محفوظ حالت میں نہیں ہوں گے؟اور وہ اسپورٹس مین جو شام کے وقت اسپورٹس کی مثبت سرگرمیوں میں مشغول ہوکر نہ صرف اپنی صحت اور فٹنس کی طرف توجہ مرکوز کئے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو مختلف قسم کی سماجی برائیوں سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔
اب کھیل کے میدان بند ہونے کی وجہ سے کیا وہ نوجوان سماجی برائیوں کی زد میں نہیں آسکتے؟ معاملات کو سلجھانے اور حالات کو بہتری کی طرف لے جانے کے لئے معاشرے کے ہر پہلو پر سنجیدگی کے ساتھ غورو فکر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ تصویر کے ایک ہی رخ کو دیکھ کر فیصلے صادر کئے جائیں کہ جن کے منفی اثرات ہمارے معاشرے کو، ایک بہت بڑے بحران میں مبتلا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔
Em bee
Sir hmain strongly koi strategies apni hongi werna Sindh govt k apny bechy to Alla skols mai inline parh rhy hongy.koi issue nhi unka.second sab ko salaries b mil rahi hongi to inko ghareeb teachers ka ahsas kia hoga.