کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل نے پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت سے علیحدگی پر سنجیدگی سے غور شروع کردیا ہے پاکستان تحریک انصاف کو مزید کوئی یاد دھانی نہ کروائی جائے کیونکہ حکومت کی حمایت کے بدلے بی این پی نے کسی وفاقی وزارت کے بجائے بلوچستان کے اجتماعی مسائل پر بات کرتے ہوئے چھ نکات پیش کئے تھے لیکن اب بلوچستان کے اجتماعی مطالبات تسلیم نہ ہونے پر حتمی فیصلہ کیا جائے سینئر لیڈر شپ کی پارٹی سربراہ سے درخواست جس پر سردار اختر مینگل جلد اہم اجلاس بلا سکتے ہیں۔
انتہائی ذمہ دارذرائع کے مطابق اہم حکومتی اتحادی جماعت بی این پی نے وفاقی حکومت سے علیحدگی کے معاملے پر سنجیدگی سے غور اس لئے شروع کیا ہے کہ بی این پی نے پاکستان تحریک انصاف کیساتھ ایک چھ نکاتی مفاہمتی یاد داشت پر دستخط کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی حکومت کی حمایت کی تھی تاہم بار بار کی یاد دھانی کے باوجود پاکستان تحریک انصاف اس چھ نکاتی معائدے پر عمل درآمد کرتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے جسکے بعد بلوچستان نیشنل پارٹی کے اندرونی حلقوں سے سینئر قیادت بالخصوص سردار اختر مینگل پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ جب اتحادی ہونے کے باوجود پاکستان تحریک انصاف تحریری معاہدے پر عمل درآمد میں ناکام ہے۔
بلوچستان کو وفاقی پی ایس ڈی پی میں کن میگا پراجیکٹس کی ضرورت ہے ایسے اہم ایشوز پر مشاورت کیلئے رابطہ تک کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ذرائع کا کہناہے کہ بی این پی کے چھ نکاتی ایجنڈے پر کوئی عملددرآمد نہ ہوسکا، لاپتہ افراد کی بازیابی کے برعکس تعداد میں اضافہ ہوتاجارہا ہے۔ذرائع کے مطابق حکومت ابتک نادرا ایکٹ اور گوادر کے حوالے سے قانون سازی میں ترامیم نہ کرسکی، وفاقی ملازمتوں میں بلوچستان کے کوٹے پر عمل در آمد فارن مشنز میں بلوچستان کے افسران کی تعیناتی پر کوئی پیش رفت نہیں کی جارہی ہے اور تو اور حکومتی مذکراتی کمیٹی غیر فعال ہوچکی ہے۔
جبکہ حالیہ بجٹ کیلئے پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے منصبوبوں کے حوالے سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ پارٹی رہنماؤں کا سردار اختر مینگل پر دباؤ ہے کہ چھ نکات بلوچستان کی عوام کی آواز تھے اسلئے ان پر عمل در آمد ناگزیر تھا اسلئے مزید وقت کے ضیاع کے بجائے کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے۔ بی این پی کے ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں پہلی مشاورت پارٹی کی سینئر لیڈر شپ کے درمیان جاری ہے۔
سینئر لیڈر شپ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب مزید کوئی رابطہ پاکستان تحریک انصاف کیساتھ بی این پی کی جانب سے نہیں کیا جائیگا،کیونکہ معاہدے کے وقت بی این پی کو وفاقی وزارت سمیت مراعات کی پیش کش کی گئی تھی جن پر بلوچستان نیشنل پارٹی نے بلوچستان کے اجتماعی مسائل کو ترجیح دی تھی لیکن حکومت کو دو سال کے دوران یہ معاملات اتنے اہم نہیں لگے اسلئے حکومتی رابطہ کار کمیٹی غیر فعال ہو چکی ہے۔