|

وقتِ اشاعت :   June 10 – 2020

فطری طور پر عورت محبت کی مثال اور امن کی دیوی ہوتی ہے۔ خدا نے اسے بیوی کی صورت میں وفا کا پیکر تو ماں کے قدموں میں جنت رکھ دی اور بیٹی کو رحمت بنا دیا۔ عورت اپنی محبت میں گھر کو جنت بناتی ہے اس لیے نہیں کہ وہ عورت ہے اس پر یہ کام لازم ہے بلکہ یہ سب وہ اپنی ممتا اور محبت کے لیے کرتی ہے لیکن فرسودہ نظام اور رسم و رواج کے نام پر عورت کی محبت کو اس کی کمزوری بنا دی گئی اور مرد اپنے بازؤں کی طاقت کو عورت کے نازک ہاتھوں پر فوقیت سمجھ بیٹا۔ بلوچستان بھی ایک ایسا ہی بدنصیب خطہ ہے جس میں آج بھی عورت دوسرے درجے کی انسان ہے۔

ہم کچھ دوست اِن بحثوں میں اْلجھے تھے کہ بلوچستان کی بیٹی جو تعلیم سے محروم ہے اس کے لیے آواز بنیں۔ ہم اس سوچ میں تھے کہ بلوچ بیٹی کی کم عمری میں شادی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ ہم اس بات پر غوروفکر کر رہے تھے کہ عورت کو سماج میں برابری کا حق ملے۔ مگر بلوچ خواتین اپنے گھروں میں ہی محفوظ نہیں، سرے عام انہیں قتل کیا جاتا ہے اور عرصہ دراز سے بلوچستان میں یہ سلسلہ جاری ہے۔بلوچ تاریخ میں دیکھا جائے تو قبائلی جنگیں ہوں یا کوئی بھی حالت مگر عورت پر ہاتھ اٹھانے کا تصور نہیں ملتا لیکن موجودہ بلوچستان کئی عرصے سے بدنظمی، سیاسی انتشار اور ظلم کا شکار ہے۔

بلوچستان کے ہر گلی میں منشیات فروش موجود ہیں اور بلوچستان کا ہر شہری چائے مرد ہو یا عورت وہ غیر محفوظ ہے۔ بلوچ عورتوں کو شہید کرنے کا عمل ریاستی ڈیتھ سکواڈ کے لوگوں نے شروع کر دیا ہے۔ حال ہی میں تربت کے علاقے ڈنک میں رات کے وقت سمیر سبزل اور اس کے ساتھی گھر میں ڈکیتی کرنے گھستے ہیں اور گھر کے افراد کو زدوکوب کرکے قیمتی سامان لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں جس پر بہادر بلوچ ماں ملک ناز مزاحمت کرتی ہے جس کو سمیر سبزل کے کارندے فائرنگ کرکے شہید کر دیتے ہیں اور ان کی چار سالہ بیٹی برمش کو شدید زخمی کیاجاتا ہے۔ ہمسایوں کے مدد سے ڈاکوؤں کو پکڑلیا جاتا ہے جن کی تصویریں صوبائی وزیر کے ساتھ سوشل میڈیا پر موجود ہوتی ہیں۔اس دن سے بلوچستان بھر میں اس واقعے کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے۔

اور ملک ناز اور برمش کے لیے انصاف کی آوازیں بلوچستان کے ہر شہرسے اٹھ رہی ہیں۔ مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عرصہ دراز سے بلوچستان کے ہر علاقے میں چور لٹیروں،منشیات فروشوں کا راج کیوں ہے؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک ناز وہ پہلی خاتون ہے جو اس طرح قتل ہوئی ہے؟ کیا برمش وہ پہلی بچی ہے جو تشدد کا شکار ہونے کے بعد اپنی ماں کھو چکی ہے؟ اب برمش بھی دیگر ہزاروں بچوں کی طرح اپنی ماں کا انتظار کر رہی ہے، اس ننی جان کو کیا معلوم کہ اب اسے ماں کی ممتا کبھی نہیں ملے گی۔

مجھے بلوچستان میں ہر عورت ملک ناز نظر آرہی ہے وہ جینا چاہتی ہے مگر اسے جینے نہیں دیا جاتا جب وہ اپنے لیے اٹھتی ہے تو قتل کر دی جاتی ہے۔ مجھے ہر بچی برمش نظر آرہی ہے جسے کھلونوں کی طلب نہیں رہی،اس کی آنکھیں اپنی ماں کی تلاش میں ہیں۔ بلوچستان کی عورت اپنے بنیادی حقوق سے تو محروم ہی تھی مگر اب اس کا گھر بھی اس کے لیے محفوظ نہیں رہا۔ کیا پتا کل کو کون کس کے گھر میں گھس کر کسی اور ملک ناز کو اپنی گولیوں سے چھلنی کر دے۔

اس مسئلے پر حکومتی سطح پر کوئی فوری رد عمل سامنے نہیں آیا، صرف حکومتی ترجمان کا ڈنک جاکر فاتح پڑھنا کافی نہیں اور نا ہی ان مجرموں کی گرفتاری کافی ہے بلکہ ایسے گروہوں کی پشت پناہی بند کر دی جائے جو کہ اب اتنے دلیر ہو چکے ہیں کہ کوئی بھی جرم کرنے سے نہیں ڈرتے اور نہ ہی قانون کی خلاف ورزی کرنے سے باز آتے ہیں۔ ان کے منشیات کے اڈے ہرگلی میں موجود ہیں جو کہ نوجوانوں کا مستقبل برباد کر رہے ہیں۔حکومتِ بلوچستان کو اب خواتین کے تحفظ اور ان کے حقوق کے لیے سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے اور یہ نہ ہو کہ بلوچستان یونیورسٹی سکینڈل کی طرح یہ معاملہ بھی کچھ وقت کے بعد دب جائے۔ بلوچستان حکومت کو عورتوں کے تحفظ، ان کی تعلیم اور بنیادی حقوق پر عملی پیشرفت کرنی ہوگی۔