آجاؤگے جو کبھی حالات کی زد میں
تو ہوجائیگا معلوم!خدا ہے کہ نہیں
آج مذہب کے خلاف لکھنااور بولنااورمذہب کے ماننے والوں پر الزام تراشیاں کرناقابل فخر چیز سمجھی جاتی ہے۔چنانچہ جس کو بھی کچھ لکھنے یا بولنے کی سدھ بدھ ہوجائے تواپنے آپ کو تعلیم یافتہ سمجھ کر مذہب کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیتا ہے،آج کل سوشل اور الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا وغیرہ میں مذہب اور مذہبی معتقدات پر بڑے شدو مد سے تنقید کی جارہی ہے،اور خدا کے وجود کاانکار کرکے اپنی من مانی زندگی گزاری جارہی ہے،اسی انکار خدا کی وجہ سے انسان اوج ثریا سے سے گر کر حیوانیت سے بدتر درجہ پر پہنچ چکی ہے۔
دنیا میں جتنے مذاہب گزرے،سب میں خداکاتصور کسی نہ کسی حد تک موجود ہے،لیکن انیسویں اور بیسویں صدی میں جب مغرب میں صنعتی انقلاب برپا ہوا اور اہل مغرب پہلی دفعہ پوپ اور کلیساکی پابندیوں سے آزاد ہوکر زندگی کی شاہراہ ہر گامزن ہوئے، صدیوں سے وہ کلیسا کے پابندیوں میں جکڑے ہوئے تھے اور کلیسا نے ان پر صنعتی اور علمی وفکری دروازے مسدود کیے ہوئے تھے، چنانچہ اہل مغرب کلیساکے مخالف ہوئے اور تحریکیں چلائیں،بالآخر وہ کلیسا کی پابندیوں سے آزاد ہوئے۔
وہ نہ صرف کلیسا اور عیسائی پیشواؤں کے مخالف ہوئے،بلکہ انہوں نے زندگی کی دوڑ ودھوپ میں مذہب کو پس پشت ڈال کر خداکے منکر ہوئے،اور یہ باور کرانے لگے کہ مذہب اور مذہب کے ماننے والے ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔اس صنعتی انقلاب میں بہت سارے نظرئیے پروان چڑھے اور ایک الگ تھلگ تہذیب وتمدن وجود میں آیا،چنانچہ اہل مغرب کے نظرئیے کے مطابق جو غیر مدرک ہو اور مشاہدے میں نہ آئے تو یہ اس کے موجود نہ ہونے کی دلیل ہے،اور اہل مغرب ہر چیز کو اپنے عقل سے پرکتی ہے اگر عقل اسکو تسلیم نہ کریں تودھڑلے سے اس کاانکار کیاجاتاہے،چنانچہ دوصدیوں سے انکار خدا کا نظریہ وجود میں آیا۔
اگر ذرا غور کیا جائے تو خدا کا وجود اور اسکے ہونے کو تسلیم کرنا یہ مذہبی خوش اعتقادی نہیں اور نہ ہی غیر معقول چیز ہے ہاں البتہ غیر مدرک ضرور ہے،اور کسی چیز کاغیرمدرک ہونا اسکے عدم کی دلیل نہیں ہوا کرتی،چنانچہ ہم نے اپنے آنکھوں سے بہت ساری چیزوں کونہیں دیکھا اور ہم نے ان کامشاہدہ نہیں کیا،پھر بھی ہم محض لوگوں کے بتانے سے ان کو تسلیم کرتے ہیں۔لیکن خدا کی وجود کی گواہی جب دنیاکے سب سے زیادہ راست گو طبقہ حضرات انبیائکرام علیھم السلام نے دی تو اسکو کیونکر جھٹلایا جائے اور اسکو مذہبی خوش اعتقادی سے تعبیر کیاجائے۔
خدا کے وجود کا اعتقاد رکھنا ایک فطری چیز ہے،چنانچہ آج تک جتنے مذاہب وجود میں آئے چاہے وہ بت پرست ہوں یا تاؤمت،سکھ،بدھ مت،زرتشت وغیرہ،ان سب کا وجود اس بات پر دلالت کررہی ہے،کہ انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ کسی کو اپنا معبود سمجھے اور اس کی پرستش اور عبادت کرے،اور مختلف مذاہب اسی تلاش وجستجو کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئے کہ کون ہے وہ ہستی جو اس نظام ہستی کو چلا رہاہے، اور کون ہے وہ ذات جو دن رات اور ماہ وسال کے اس زبردست نظام کو اپنے مقررہ وقت میں انجام دے رہاہے۔ذرا غور کریں تو ذہن میں یہ سوال ابھرے گا کہ اتنی بڑی زمین وآسمان خودبخود کیسے وجود میں آئے،جبکہ ایک تنکا اپنی جگہ سے اِدھر اْدھر نہیں ہوسکتا،تومجبورا ًیہ ماننا پڑیگا کہ واقعی کوئی ہستی ہے جو اس نظام کائنات کو سنبھالا ہواہے
تو وہ کون ہے؟جواتنی بڑی کائنات کواپنے قبضہ میں لیا ہوا ہے۔تو ظاہری آلہ علم رہنمائی نہ کرسکے،جن کوحواس خمسہ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔تو علم وحی کے روشنی سے ہمیں معلوم ہوا کہ وہ ذات اللہ رب العزت ہے۔وحی بھی آلات علم میں سے اعلیٰ درجے کا آلہ ہے،چناچہ جوچیزیں حواس خمسہ کے ذریعے ہمارے ادراک میں نہیں آسکتیں۔وہ عقل کے ذریعے ہمارے ادارک میں آجاتی ہیں،لیکن عقل کابھی دائرہ کار غیر محدود نہیں،بلکہ ایک حد پر جاکر ختم ہوجاتی ہے،اس سے آگے وحی کا دائرہ کارشروع ہوجاتاہے۔چناچہ اگر وحی کی کوئی بات اور کوئی دینی عقدہ عقل میں آئے تو یہ کوئی بری بات نہیں کیونکہ وحی کا دائرہ کار ماورائے عقل ہے۔لہذا خدا کے وجود کا انکار کرنا اور ارتقائے انسانیت میں اسکو رکاوٹ سمجھنا نری جہالت ہے۔
اب اگر یہ سوال کیا جائے کہ اس انقیاد اور مذہبی خوش اعتقادی کے کیا ثمرات انسانی زندگی پر مرتب ہوئے۔تو جواب میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے وہ کارنامے جن کو دیکھ آج کا انسان دھنگ رہ جاتا ہے اور ان ہستیوں کو ماورائے انسانیت ایک الگ مخلوق سمجھنے لگتا ہے۔چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے جنگی اور عملی کارنامے اخلاقی و سماجی اور انسانی ہمدردی اور حیوانوں کے ساتھ بھی ہمدردی کے ایسے اعلیٰ نمونے اور ایسی مثالیں ملیں گی کہ قاری انگشت بدنداں ہوگا اور معلوم ہوجائے گا کہ اس انقیاد و مذہبی خوش اعتقادی نے انسانیت کی ارتقاء اور ترقی میں کیسے نا ہونے والے کام سرانجام دلوائے۔اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کرنے والے تمام گمرائیوں سے محفوظ رکھے۔آمین ثم آمین یا رب العالمین۔