|

وقتِ اشاعت :   June 12 – 2020

دنیا میں جماعتیں عوام کے زور بازو پر بنتی اور اپنا وجود برقرار رکھ پاتی ہیں،جب کسی جماعت کی بنیاد رکھی جاتی ہے تو ان کا سرچشمہ و منبع عوام ہی ہوتی ہے۔کیونکہ عوام کے بغیر چند رہنماؤں کے وجود سے جماعتیں جماعت نہیں انجمن کہلاتی ہیں۔ جماعت بننے کے پہلے ہی جز میں اس بات کا دھیان رکھا جاتا ہے کہ کیسے عوام کو اپنی طرف راغب کرنا ہے،عوامی مسائل کے حل کیلئے نعروں کے ساتھ عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کیلئے ان جماعتوں کے کرتا دھرتا عوام کے درمیان ہر وقت موجود رہ کے اپنائیت کا احساس دلاتے رہتے ہیں کہ کوئی بھی عوامی جینوئن مسئلہ صرف ایک ذات کا نہیں۔

بلکہ قوم کا مسئلہ سمجھ کر ان جماعتوں کے سربراہان اور ممبرز ان مسئلوں کو اپنا سمجھتے ہیں۔مسئلہ حل ہو یا نہ، لیکن عوام کو جب احساس ہونے لگتا ہے، کہ اس جماعت نے کم از کم جائز مسائل کے حل کیلئے اس مسئلے کو اجاگر کیا ہے تو عوام کا اعتماد بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔ عوامی اعتماد کے ساتھ جب جماعتیں آگے بڑھتی جاتی ہیں تو دنیا کی تاریخگواہ ہے کہ بہت سے ناممکنات کو ممکن بنادیتے ہیں۔عوام کے دلوں پر راج اس وقت کیا جاسکتا ہے جب سیاسی جماعتیں عوام کا اعتماد و بھروسہ حاصل کرسکیں۔ اپنے بنیادی مسائل کے حل کیلئے عوام کا اعتماد اور عوام کو موبالائز کرنا سیاسی جماعتوں کی روزافزوں توانا پرورش کا باعث بنتی ہیں۔عوام کی شرکت سے کسی بھی مسئلے کو سرکارِ وقت کے سامنے اٹھانا توانا آواز قرار پاتی ہے، اور اقتدار کے ایوان تب لرز اٹھتے ہیں۔

تمہید کے بعد اب آتے ہیں مکران کی طرف،مکران میں تقریباً 20 کے قریب مرکزی،صوبائی اور علاقائی سطح کی جماعتیں اپنا وجود رکھتی ہیں۔”مکران” کے دو بڑے شہروں میں ان جماعتوں نے عوامی مسائل کے حل کیلئے “آل پارٹیز اتحاد” کے نام سے ایک اتحاد تشکیل دی ہوئی ہے،جو خوش آئند ہے، ان جماعتوں کی طرف سے اس اتحاد کو امید کی کرن بھی قرار دیا جارہا ہے۔ان جماعتوں میں بڑے بڑے سیاسی رہنما موجود ہیں،جن کی پہچان عوامی لیڈر کی حیثیت سے گردانا جاتا ہے،اور واقعی ان میں اتنی قوت موجود ہوتی ہے کہ وہ عوامی طاقت کو اپنی جانب راغب کرسکیں۔ان جماعتوں میں قوم پرست، مذہبی و سیکولر جماعتیں بھی شامل ہیں۔

مکران مسائل کے حوالے سے اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔مکران میں مسائل کا انبار لگا ہوا ہے، جن میں سرفہرست تعلیم،سڑک،آب،بجلی، بدامنی اور منشیات کی وبا جو اوسطاً ہر پانچ گھرانوں کے نوجوانوں میں بڑی تیزی سے سرایت کرتا جا ریاہے، ان کے علاوہ بہت دوسرے ذیلی مشکلات یہاں کے عوام کو کئی دہائیوں سے درپیش ہیں، ان مسائل کے حل کیلئے ان جماعتوں کے رہنما وقتاً فوقتاً عوام کے درمیان آتے رہے ہیں،اور ان مسائل کے حل کیلئے حکومت سے التجائیں بھی کرتے رہتے ہیں،لیکن!!!سوال یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ عوام کی کثیر تعداد ان کے ساتھ کیوں نہیں، جب یہ جماعتیں عوامی مسائل کے حل کے نعروں کے ساتھ یکجا ہوئے ہیں عوام ان جماعتوں کو مفاد پرست ٹولہ کیوں گردانتی ہے؟

“آل پارٹیز اتحاد” کے بقول(کوئی شک نہیں) جب یہ عوام کیلئے اپنی اپنی جماعتوں کے مفاد سے بالاتر ہوکر عوامی مسائل کے حل کیلئے یکجا ہوئے ہیں تب یہ عوام ان کو خاص بیک اپ یا سپورٹ کیوں نہیں کررہی؟ یہیں سے عوامی اعتماد کا فقدان نظر آنے لگتا ہے،سوال یہ ابھر رہا ہے کہ عام آدمی ان جماعتوں پر اعتماد کیوں نہیں کر رہا؟
حالانکہ ان یکجا جماعتوں کا خوشنما سلوگن ہی عوامی مسائل کو حل کرنا ہے،اس سلوگن کو عوام میں خوب پذیرائی ملتی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔عوام ان جماعتوں کے شانہ بشانہ کیوں نہیں کھڑی ہو رہی؟کیا ان جماعتوں نے اپنا اعتبار کھودیا ہے؟کیا آل پارٹیز اتحاد کی صفوں میں ایسے فرد و افراد تو موجود نہیں جنہوں نے عوامی مفادات کو زک پہنچائی ہو؟

کیا آپ کی “آل پارٹیز اتحاد” میں ایسے رہنما تو نہیں جنہیں عوام قبول کرنے کیلئے تیار نہیں،جنہیں عوام مفاد پرست ٹولہ سمجھتی ہے؟کیا مکران کے دو بڑے شہروں (گوادر،کیچ) کے “آل پارٹیز اتحاد”میں شامل سیاسی و مذہبی جماعتوں نے عوامی مفادات کا کبھی سودا کیا ہے؟ “گوادر” اور “کیچ”میں علیحدہ علیحدہ مذہبی و سیاسی جماعتیں مقامی مسائل اور عوامی مفاد کیلئے “آل پارٹیز اتحاد”کے نام سے عرصے سے یکجا ہوئے ہیں۔کبھی آپ نے “آل پارٹیز اتحاد” کے زیر سایہ جلسوں کی جھلک دیکھی ہے کہ عوام کی کتنی تعداد آپ کے جلسے جلوسوں میں شرکت کرتی ہے؟کبھی جینوئن ایشوز پہ عوام کو اپنی پشت پر پایاہے؟

تازہ مثال گوادر کی لے لیں،،

گوادر میں پچھلے 4,5 دنوں سے بجلی کے حوالے سے “آل پارٹیز اتحاد” کے رہنما ملا موسیٰ موڑ پر دھرنا دئیے بیٹھے ہوئے ہیں۔صبح سے شام تک اس تپتی دھوپ میں سراپا احتجاج ہیں۔لیکن!!ان 10 سے زائد جماعتوں کے کارکن ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ایسا کیوں؟یہی جماعتیں صرف اپنی اپنی پارٹی کے 50 یا 100 کارکن موبالائیز کیوں نہیں کر پارہے؟ گوادر میں بجلی،پانی بنیادی مسائل میں شمار ہوتے ہیں،ان کا براہ راست اثر عوامی زندگی پر ہوتا ہے، لیکن سوال یہ کہ عوام پھر بھی اس دھرنے میں شریک نہیں۔کیچ و گوادر کے”آل پارٹیز اتحاد” کو اس بارے میں حددرجہ غور و فکر کی ضرورت ہے، کہ کیسے عوام کا اعتماد بحال کریں،کیسے عوام کو موبالائز کرکے ان مسائل کے حل کیلئے جدوجہد کی جانب راغب کرسکیں،،