|

وقتِ اشاعت :   June 13 – 2020

ہم ایک ایسے معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں شخصیات اورچہروں کوپوجا جاتا ہے۔ ہم بولتے ہیں تو صرف اپنے لیے،آواز اٹھاتے ہیں اپنے مفاد کے لیے،پھر جب بول بول کر تھک جاتے ہیں تو سکون کی نیند سو جاتے ہیں۔ لیکن کبھی سوچا ہے کہ ان پانچ ہزار ایک سو اٹھائیں سے بھی اوپر کی تعداد میں جو بلوچستان کے مسنگ پرسنز ہیں جن میں بچے، بزرگ، مرد اور خواتین بھی شامل ہیں ان کے گھر میں ماتم نہیں مچتا ہوگا؟ کیا ان کو کبھی سکون کی نیند نصیب ہوئی ہو گی؟ ان کا نوحہ بھی کوئی سن لے، ان کا درد بھی کوئی لکھے۔

میں نے جب بلوچستان کی بیٹی حسیبہ قمبرانی کی چیخ وپکارسنی اوراس کے لرزتے ہاتھ دیکھے جو دل کی اذیت سے گزر کرفریاد کر رہی تھیں معاشرے کااور حکومت کی نا اہلی کا رونا رو رہی تھی اور اپنے گرتے ہوئے آنسوؤں میں ایک سوالیہ نشان لے کر کہہ رہی تھی”میں اپنے ایک بھائی کی لاش وصول کرنے کے بعددوبھائیوں کیلیے آوازاٹھارہی ہوں،میں بلوچستان ہوں ” تب دل میں ایک دم خیال آیاساری زندگی جس ماں نے سینے سے لگا کے بڑا کیا اور بہن نے ہر ناز نخرے اُٹھائے، بچوں نے باپ کا سایہ محروم ہوتے دیکھا اور باپ نے اپنے بڑھاپے سے کندھا سرکتے دیکھا اور بیوی عمر بھر کی خوشیوں سے محروم، ان کے سامنے زندگی بھر کی خوشیاں ایک ساتھ لا کے رکھے جائیں تو بھی یہ دکھ کسی صورت ان کا ازالا نہیں کر سکتے!

سلام ہے ان بلوچ اور پختون ماؤں بہنوں کو جو دن، رات،صبح، شام، گرمی ہو یاسخت سردی ایک ہی آواز روز بلند کرتے ہیں اورہارآخری دم تک نہیں مانتے “ہمارے بچوں کو ہمارے پیاروں کو بازیاب کرو” اپنے سورج کے طلوع ہونے کے انتظار میں ان کا ایک ایک دن ایسی اذیت میں گزرتا ہے کہ شاید ہی کسی اے سی میں بیٹھے “میں اور میرا لیڈر مہان” والے مفاد پرستوں کو اس کا اندازہ ہو!

ہم چاپلوسی کریں گے، رشوت بھی لیں گے حرام بھی کھائیں گے، کسی کا حق بھی ماریں گے لیکن رات کو سکون کی نیند بھی اسی طرح ہی سوئیں گے جیسے ایک حکمران بے ضمیر ہو کر سوتا ہے لیکن جب ان کے سامنے انصاف کا دروازہ کھٹکھٹائے حسیبہ قمبرانی جیسی کئی بہنیں دل میں پیاروں کے کھونے کا بوجھ لے کر روئیں فریاد کریں تو ان کے ہونٹ سل جاتے ہیں جیسے کوئی سانپ سونگھ گیا ہو،، لیکن یہ وقت کے وہ فرعون ہیں جو ہمیشہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی زندگی بے حد محدود ہے اور تاریخ کے اوراق بے حد وسیع ہیں۔ بعد میں ایسی قوم کو صرف عبرت کی ایک مثال کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے، جو انسانوں کے استحصال کا باعث بنے ہوں۔ مگر کسی فرعون کو یہ بات کبھی سمجھ نہیں آتی!

ماں نے روتے روتے زندگی گزار دی، باپ نے در در کی ذلالت دیکھی اور اپنی ساری جوانی اپنے پیارے کی آس میں گزار دی،یہ آس یہ انتظار،یہ امیدیں! آج نہیں تو کل ان کی کوئی سنے گا،کوئی ان سے پوچھے گا، کوئی ان کے نام پر بھی بولے گا، لکھے گا۔۔امید،، امید،، اور امید،، زندگی بھر کا انتظار اور اس انتظار میں کئی خاندانوں کی امیدیں وہیں کے وہیں 70 سالوں سے دھرے کے دھرے رہ گئے۔انصاف کی دہائی دے دے کر قانون کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہے لیکن طاقتور کے دربار کے درباری بنے قانون کے نام نہاد محافظوں کے کانوں پر پردہ پڑگیا۔کئی ماں باپ اپنے پیاروں کی یاد میں گزر گئے، کئی بہنوں کی خوشیاں چھن گئیں اور معاشرے کی گندی نظروں کی بھینٹ چڑھ گئیں،کئی بچوں کے سر سے ان کے باپ کا سایہ چھن گیا۔

لیکن سمجھ نہیں آ رہا جو درد،ظلم اپنے ہی پاکستان میں دکھائی دے رہا ہوتو کیوں لوگ اپنے صوبے کو چھوڑ کر دوسروں کے ہمدرد بنے پھرتے ہیں اور ان کے لیے صدا بلند کرتے ہیں؟ کیا بلوچستان میں غموں کے پہاڑ کم ہیں؟ کیا بلوچستان والوں کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہوئی؟ کیا یہاں کا لہو کسی کو دکھائی نہیں دیتا؟ کیا یہاں کی حسیبہ کے آنکھوں سے ٹپکتے ہوئے آنسو کسی کو دکھائی نہیں دیتے؟ افسوس!کہنے کے لیے الفاظ کم پڑ جائیں اور لکھنے کے لیے پورا آسمان لکھ دوں لیکن ان ماؤں، بہنوں کے آنسوؤں کے ایک ایک قطرے اور ان کے دکھ میں اپنے الفاظ میں نہ لکھ سکتی ہوں نا بیاں کر سکتی ہوں!


بلوچ ماؤں، بہنوں کے مقدر میں لکھا گیا یہ عذاب اور ان سے ان کی خوشیوں کا قتل عام سراسر نا منظور ہے۔ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے آنے سے پہلے کئی وعدے اور دعوے کیے تھے ان میں سے ایک وعدہ ان “بلوچستان کے مسنگ پرسنز کا ہے” عمران خان نے کہا تھا کہ میں اپنی حکومت میں آتے ہی سب سے پہلے بلوچستان کے مسنگ پرسنزکے خلاف اقدام لونگا”لیکن مجال، یہاں تو معاملہ ہی الگ ہے اقدام اور دیکھنا تو دور کی بات انہوں نے اپنے منہ سے کبھی ذکر تک نہ کیا۔سارے خواب،سارے وعدے اور ان کے پورا ہونے کے منتظر یہ بلوچ مائیں بہنیں ہر روز ہاتھوں میں پوسٹرلیے ایک ایک کی چوکھٹ پر جا کر در در انصاف کی اپیل کرتی ہیں۔

اندھے قانون کی سیڑھی پر جا کے ایف آئی آر کٹواتی ہیں آخر تھک ہار کر پوسٹر ہاتھ میں لیے کیمپ کی طرف رخ کرتی ہیں اورکئی آس لیے خود اپنے پیاروں کی آواز بنتی ہیں۔یہاں حکومت احتساب کی شہنائیاں بجاتی ہے اور بائیس کروڑ لوگ آنکھیں بند کیے، سوچے سمجھے بغیر پیچھے چلتے چلتے کھائی میں جا گرتے ہیں۔ عوام کو بے سروپا مذاق کے پیچھے لگا کر یہی ووٹ لینے والی سرکار خود الزامات کی سیاست پر سانپ سیڑھی کا کھیل کھیلتی ہے۔ اپنے مفاد کے لیے پانسے اوپر نیچے دائیں بائیں گھماتی ہے۔اور ہم شکل کے بچاری اسی ناچ میں ناچتے ہیں اور انہیں کے اشاروں پہ ایک ہی رٹ کے ناچ گاتے ہیں “میرا لیڈر مہان” دو پیسے منہ پر مارے جائیں تو یہاں با ضمیر لوگ بھی بے ضمیر نظر آئیں،دو پیسوں کے لیے یہاں دوٹکے کے آدمی چاپلوسیوں کے چکر میں پتا نہیں کس کس کے انصاف کا گلہ گھونٹ دیتے ہیں۔

ہمارے دلوں میں مردے زندہ ہیں ہم دن رات زندہ ہے زندہ ہے کے نعرے لگاتے ہیں لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ زندہ ہو کے مرنا کس کو کہتے ہیں؟ کیا کبھی سوچا ہے کہ ساری زندگی انتظار کرو اور ایک دن خبر آئے آپ کے بیٹے کو ایک دن جبری اغوا کیا گیا تھا اورآج اسکی تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی ہے!اس ماں سے پوچھیں اس حسیبہ قمبرانی سے پوچھیں جس نے اپنے بھائی، ایک ماں نے اپنے بیٹے کی تشدد زدہ لاش دیکھی جس کو اس نے کئی برس سے نہ دیکھا ہو،وہ کیا اس میت سے گلہ کرے گی؟ شکوہ کرے گی؟کئی برسوں سے گرتے ہوئے آنسو آج اپنے بیٹے کی میت میں کیا روئے گی؟

انصاف کا گلہ گھونٹ دیا گیا، انتظار کی میت اٹھی اور گھر سے خوشیوں کا جنازہ،، لب سل گئے، آنسو خشک، سارے شکوے زندگی بھر کے لیے سینے میں بوجھ بن کر قید!جس طرح اسرائیلی بچے نے کہا تھا میں اوپر جا کر اللہ کو سب کچھ بتاؤں گا،اسی طرح ہم بلوچ مائیں بھی کہتی ہیں “ہم اوپر جا کر اللہ کو سب کچھ بتائیں گے” جو لوگ دیکھ کر سن کر چپ ہیں ان کو معلوم ہونا چائیے کہ چپ رہنا بھی ایک گناہ ہے!

زندگی ہر بار موقع نہیں دیتی، اسی لیے لکھو،، بلوچستان لکھو،،بار بار لکھو،حسیبہ قمبرانی کی فریاد لکھو،، اتنا لکھو کہ سب تک آواز پہنچے،، اتنا لکھو کہ ان بلوچ ماؤں کی آواز چیرتے ہوئے سب کے کانوں تک پہنچے،، مجھے لکھو، میرا لہو لکھو، میرے آنسوؤں کے ایک ایک قطرے کو لکھو، میری زندگی کا پورا قصہ خوشیوں سے بھرا ہوا لکھو، لکھتے رہو جب تک بے ضمیر لوگ جاگ نہ جائیں تب تک لکھو، قلم اگر بکا نہ ہو تو بلوچستان لکھو!

3 Responses to “قلم اگر بکا نہ ہو تو بلوچستان لکھو””

  1. Hina Aziz

    Well said miss nida when I read your article I really understand the feeling of missing persons in balochistan and her pains. Its never ending chain for the people balochistan.

  2. Fiza Baloch

    اگر ایسے ہی بلوچستان کی ساری بیٹیاں ندا بلوچ بن جائیں تو ہماری آواز کسی کی محتاج نا ہو گی ہمارا قلم کسی کا محتاج نا ہو گا ویلڈن ندا بلوچ لکھتی رہیں بلوچستان کے لیے

  3. Ibraheem Jaan Rind

    Zabrdast likha ham balochistan hy ham b ap sab k haq me hy

Comments are closed.