|

وقتِ اشاعت :   June 13 – 2020

بلوچستان نیشنل پارٹی نے وفاقی حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا ہے یہ خبر نظروں کے سامنے آتے ہی میرے ذہن میں جو پہلا خیال آیا وہ تھا کہ سردار اختر مینگل کو اتنا غصہ کیوں آتا ہے؟ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں ایک کارنر میٹنگ ہاکی گراؤنڈ میں رکھی گئی تھی سردار اختر مینگل براہوئی میں تقریر کررہے تھے۔ انکے الفاظ مجھے یاد ہیں جب انہوں نے کہا کہ میں جو بولنا چاہتا ہوں وہ بولنے سے ڈرتاہوں، یہ ڈر مجھے اپنے لئے نہیں لگتا مجھے اپنے کارکنوں کیلئے لگتا ہے میں جو بولوں گا اسکی قیمت میرے کارکن چکائینگے۔بی این پی کارکنوں نے اس جماعت اور میرے لئے جو قربانیاں دی ہیں۔

میں اسکی کوئی قیمت نہیں چکا سکتا۔اور واقعی اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سردار اختر مینگل اور انکی جماعت نے دو ہزار چھ کے بعد اسکی بھاری قیمت چکائی،کراچی میں انکے گھر کے محاصرے سے لیکر حب میں انکی گرفتاری اور پھر حب کے باغ میں نظر بندی کے دوران فائر کے ٹیسٹ کی کوشش سے کراچی منتقلی کے دوران سی مینز چورنگی پر بکتر بند کو نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر روکے جانے اور سینٹرل جیل کراچی میں پنجرے کی قید سے لیکر اپنی رہائی تک، انہوں نے موت اور زندگی دونوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔

دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں بی این پی کیلئے میدان آسان نہ تھا گوادر اور وڈھ کی دونشستوں پر کامیابی کے باوجود وہ وزارت اعلٰی کیلئے میاں نواز شریف کے امیدوار تھے،آخری لمحے تک میاں نواز شریف انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے، پیغام رسانی جاری رہی۔ میاں نواز شریف ستانوے کا کفارہ ادا کرنے کے شدید خواہش مند تھے لیکن کامیاب نہ ہوئے۔سردار اختر مینگل دو نشستوں کیساتھ وزیر اعلٰی نہیں بننا چاہتے تھے اور نہ بنے یہ ایک بہتر سیاسی فیصلہ تھا دو ہزار اٹھارہ میں بی این پی مینگل جب میدان میں اتری تو بلوچستان سے جو مینڈیٹ انہیں ملا بحیثیت پارلیمانی جماعت بی این پی اب بھی سمجھتی ہے کہ کچھ نشستوں پر انکے ساتھ اب بھی زیادتی ہوئی ہے لیکن کم از کم یہ ایک حقیقت ہے۔

اپنے صوبے میں موجود قوم پرست جماعتوں سے بہتر نتائج بی این پی نے حاصل کئے۔ ہر کسی کو یہ امید تھی کہ اب سردار اختر مینگل بلوچستان اور مرکز میں حکومت کا اہم حصہ ہونگے بی این پی کے کارکنان بھی طویل اور صبر آزما دور کے بعد ایوان اقتدار میں دیکھے جائینگے لیکن کسی نے جو بھی سوچا ہو، سردار اختر مینگل نے روایات سے ہٹ کر ہمیشہ کچھ کرنے کی سعی ضرور کی ہے بلوچستان میں حکومت سازی انکی کوشش ضرور تھی لیکن اعداد و شمار کا کھیل صرف ایک صورت میں انکے حق میں جا سکتاتھا کہ پاکستان تحریک انصاف انکا ساتھ دے اور ایسا ممکن نہ تھا۔

باوجود اسکے کے پی ٹی آئی بلوچستان کے اس وقت کے صدر سردار یار محمد رند کی شدید خواہش تھی کہ وڈھ اور شوران کے سردار کو اختیار دیکر مذاکرات کی میز پر ایک کمرے میں بند کردیا جائے ایک گھنٹے میں وہ اتحاد طے کرلینگے۔ بلوچستان حکومت سازی کوئی مشکل مرحلہ نہیں لیکن پی ٹی آئی مجبور تھی اور اس مجبوری کو جہانگیر ترین سردار رند کو بتا چکے تھے۔ وڈھ اور شوران کے سردار کی نہیں مانی گئی کیونکہ بلوچستان عوامی پارٹی کیساتھ معاملات طے ہوچکے تھے، اب سردار اختر مینگل اسلام آباد سے کوئٹہ آچکے تھے پاکستان تحریک انصاف کو مرکز میں حکومت بنانے کیلئے سردار اختر مینگل کے پانچ ووٹ درکار تھے شوگر کنگ جہانگیر ترین شاہ محمود قریشی کے ہمراہ کوئٹہ پہنچ چکے تھے۔

سردار یار محمد رند اور قاسم سوری انکے ہمراہ تھے اور اور انکا رخ سریاب روڈ کی طرف تھا،خاران اسٹریٹ پر پاکستان تحریک انصاف اور بی این پی کے مابین سردار اختر مینگل کی رہائشگاہ پر مذاکرات کا فائنل راؤنڈ جاری تھا۔ سریاب روڈ جسے ماضی میں ایک خونی روڈ سے تشبیہ دی جاتی تھی جہاں کا نام سن کر ملک کے دیگر شہروں کے لوگ کان پر ہاتھ لگا کر بھاگ جاتے تھے،آج وہیں شوگر کنگ جہانگیر ترین ملتان کے شاہ محمود قریشی کو سردار اختر مینگل کے پانچ ووٹ کھینچ کر لے آئے ہیں۔

کیونکہ سردار اختر مینگل نے کسی حکومت سازی کیلئے اسلام آباد جانے سے انکار کردیا ہے۔ انکا واضح موقف ہے جسے ضرورت ہے وہ یہاں بلوچستان آجائے۔ پاکستان تحریک انصاف کے اس وفد میں بلوچستان سے پی ٹی آئی کے صدر سردار یار محمد رند بھی شریک ہیں بلوچستان کے دو اہم قبائل کے سردار مذاکرات کی میز پر ایک دوسرے کے سامنے ہیں۔ مذاکرات میں کیا ہوا کیسے بات شروع ہوئی اس سے قبل یہ بتاؤں سردار اختر مینگل کی رہائشگاہ پر ہر طرف کارکنان اور میڈیا موجود ہے، بہت سے مفروضات پر بات چیت جاری ہے۔

اس گھر میں داخل ہوتے ہی ہمارے دوست اور سردار اختر کے قریبی عزیز چنگیز گچکی سے ٹاکرا ہوا جیسے بڑا بھائی چھوٹے سے ملتا ہو۔ لسبیلہ کے خاص انداز میں میر چنگیز نے گلے لگا لیا کچھ حال احوال کے بعد انہوں نے مجھے اخترحسین لانگواور اکبر مینگل کے حوالے کردیا،میری نگاہیں اس کمرے کے دروازے پر تھیں جہاں مذاکرات جاری ہیں دل چاہ رہا ہے اُڑ کر اس کمرے کے اندر پہنچ جاؤں اور پھر دونوں موجودہ ایم پی ایز سے پوچھا کہ اندر کیا ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا ہم باہر ہیں کیا ہو رہا ہے انتظار کرتے ہیں یہاں دل چاہ رہا ہے کہ وڈھ اور سریاب کے ان دو فرزندوں کے نام تحریر کردوں جنکی آنکھ کے ایک اشارے نے میرے لئے تمام رکاوٹیں ہٹادیں اور میں اس کمرے تک پہنچ گیا جہاں مذاکرات جاری تھے۔

سردار یار محمد رند ان مذاکرات میں موجود ضرور تھے لیکن اپنے پرانے دوست جہانگیر ترین کی جانب سے دیئے گئے زخموں کیساتھ خاموش تھے، سردار اختر مینگل کی نگاہیں بارہا یہ ڈھونڈھ رہی تھیں کہ سردار یار محمد رند جن سے زیادہ قریب کا تعلق ہے وہ کیوں کر صرف ایک سائیڈ رول پر بیٹھے ہیں لیکن سردار یار محمد رند یہاں یہ جانتے تھے کہ جو بات سردار اختر مینگل اور انکے دل میں ہے یہاں اسے کوئی نہیں سنے گا اور اگر وہ اس معائدے میں کوئی اہم کردار ادا کرتے ہیں اورکل کلاں اس پر عمل نہیں ہوتا تو ایک بلوچ سردار اپنے دوسرے بلوچ بھائی کے سامنے بے زبان ٹھہرایا جاسکتاہے۔

اور ایک بلوچ سردار کا بے زبان ٹھہرایا جانا بلوچ کوڈ میں بہت عیب کی بات ہے۔ یہاں یہ بھی بتاؤں بی این پی مینگل نے پاکستان تحریک انصاف کو بلوچستان میں حکومت بنانے کیلئے بلینک چیک دیا تھاکہ آئیں ہم حمایت کرتے ہیں بلوچستان میں حکومت بنائیں اگر آپ نہیں بنانا چاہتے تو ہمیں موقع دیں آپکی حمایت سے ہم بلوچستان میں حکومت بناتے ہیں لیکن اس فیصلے کا اختیار پاکستان تحریک انصاف کی اس کمیٹی کے پاس بھی نہیں تھا گو کہ پاکستان تحریک انصاف کی ترجیح مرکز میں حکومت بنا ناتھا اور مرکز کیلئے پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے بعد انہیں بلوچستان کی کوئی خاص ضرورت تھی۔

ہی نہیں اس لئے وڈھ اور شوران کے سردار کیا سوچ رہے ہیں پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت اس میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ ملتان کے شاہ محمود قریشی بھی سردار یار محمد رند کی طرح اس کمرے میں سارے معاملے میں صرف سائیڈ لائن پر رہنا چاہتے ہیں کیونکہ جنوبی پنجاب کے گدی نشین کو بلوچستان اور سندھ کے بلوچ سرداروں اور انکے طرز زندگی اور فیصلوں کی اہمیت کا ادراک بھی ہے اور وہ بھی سردار یار محمد رند کی طرح شوگر کنگ جہانگیر ترین کے ستائے ہوئے ہیں۔ بی این پی مینگل کی آفر پر کوئی خاص پیش رفت نہ ہوئی توسیاست کی ایک نئی بساط بچھ چکی تھی، شوگر کنگ نے وفاقی وزارت سے لیکر دیگر تمام مراعات میز پر بی این پی مینگل کے سامنے رکھ دی تھیں جنکے بدلے وہ بی این پی کے پانچ ووٹ کی حمایت چاہتے تھے۔

سردار اختر مینگل جو کہ بلوچستان کی سیاست میں اپنے اکابرین کی طرح جیل کاٹ چکے ہیں اور کہتے ہیں جیل انسان کو بہت کچھ سکھا دیتی ہے، سردار اختر مینگل کی جماعت میں اکثر اراکین اسمبلی کی یہ خواہش تھی کہ یہ سب سمیٹ لیا جائے لیکن سردار اختر نے بلوچ کے گدان میں موجود اس مذاکرات کرنے والی کمیٹی کے سامنے چھ نکات رکھے،ایسے ہی کچھ نکات کچھ عرصہ قبل وہ ملک کی اعلیٰ عدالت میں سپریم کورٹ میں رکھ چکے تھے اور یہ ان چھ نکات کا پہلا نکتہ تھا لاپتہ افراد کی بازیابی، کچھ بحث و مباحثہ ہوا،جہانگیر ترین کو کچھ ہی دیر میں اندازہ ہوا کہ اس شرط کو مانے بغیر یہ بلوچ آگے نہیں بڑھے گا۔

انہوں نے کچھ معاملات پر سردار اختر مینگل کو اپنی مجبوریاں بتائیں لیکن سردار اختر مینگل اس بات سے پیچھے ہٹتے نظر نہ آئے۔ جسکے بعد بلوچستان کا دوسرا اہم مسئلہ افغان مہاجرین کا انخلاء، تیسرا مسئلہ بلوچ قومی تشخص کی حفاظت کیلئے گوادر کے حوالے سے اور وہاں کی مقامی آبادی اقلیت میں تبدیل نہ ہوجائے خصوصی قانون سازی اسکے بعد دیگر تین نکات ایسے تھے جن پر پاکستان تحریک انصاف فوری مان گئی اور پھر اس مفاہمتی یاد داشت پر دستخط ہوگئے۔ یہاں ایک لفظ ایم او یو کے استعمال نے اور اس یاد داشت میں کوئی ٹائم فریم مقرر نہ ہونے نے سردار اختر مینگل اور انکی جماعت کو مجبور کردیاہے کہ بار بار پاکستان تحریک انصاف کو یاد دہانی کروانی پڑتی ہے اور جب جب یہ یاد دہانی کروائی جاتی ہے تو ناقدین اسے سیاسی بلیک میلنگ قرار دیتے ہیں۔

سیاست کھیل ہی کچھ لینے اور دینے کا ہے لیکن یہ یاد رکھیں سردار اختر مینگل 97 میں جب وزیر اعلیٰ بنے تھے تو نوجوان تھے کچھ غلطیاں ہوئی ہونگی لیکن جیل کی صعوبتوں نے انہیں جسمانی طورپر ضرور تھکا دیا ہے لیکن اعصاب آج بھی بہت مضبوط ہیں۔چھ نکات اس بات کی دلیل ہیں اور یہاں یاد رکھیئے دو ہزار آٹھ میں ایم پی اے ہاسٹل میں بی این پی کی سینٹرل کمیٹی تقسیم ہوچکی تھی کہ انتخابات میں حصہ لیں یا نہیں۔اس وقت کا راوی بتاتا ہے کہ سینٹرل کمیٹی کی میٹنگ میں یہ تاثر دیا گیا کہ سردار عطاء اللہ خان مینگل انتخابات میں حصہ لینے کے حق میں ہیں، رات گئے اجلاس کے دوران سردار اختر مینگل کے خط نے بازی پلٹ دی اور بی این پی مینگل نے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔

نواب اکبر خان بگٹی کے واقعے کے بعد یہی سردار اخترمینگل تھے جب انہوں نے بی این پی کے اراکین کو حکم دیا کہ ہم ان اسمبلیوں میں نہیں بیٹھ سکتے اور اسمبلیاں چھوڑ کر باہر آگئے اور استعفیٰ دیدیے۔ تو اب سوال اٹھتا ہے کہ کیا اب وہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو چھوڑ دینگے؟ پاکستان تحریک انصاف اگر سردار اختر مینگل کی جماعت کو نہیں روکتی تو یہ اسکی مشکلات کی ابتداء ہوگی۔جب یہ سطور لکھ رہا ہوں اس وقت ن لیگ کے صدر میاں شہباز شریف کا کرونا کا ٹیسٹ مثبت آچکا ہے اور ہمارے دوست بی این پی کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کا سوشل میڈیا اسٹیٹس اپڈیٹ ہوچکاہے۔

سردار اختر مینگل کا شہباز شریف سے ٹیلی فونک رابطہ انکی خیریت دریافت کی دیکھ لیں ابھی تک صرف خیریت پوچھی ہے۔ اگر پاکستان تحریک انصاف سردار اختر مینگل اور انکی جماعت کو اپنے اتحاد میں جوڑے رکھنا چاہتی ہے تو مفاہمتی یاد داشت پر دستخط کرنے والے اپنے رہنماء جہانگیر ترین کو تو ممکن ہے لندن سے نہ لا سکے لیکن اگر شاہ محمود قریشی اورسردار یار محمد رند کو سردار اختر مینگل کے پاس بھیج کر روک لے بصورت دیگر روایت شکن سردار اخترمینگل اس حکومت کا مزید بوجھ نہیں اٹھا سکیں گے چاہے وہ اپنا فیصلہ بجٹ پاس ہونے سے پہلے کریں یا بعد میں انکی پرانی دوستی شہباز شریف سے اور جام بجار ملیر کے اہلخانہ کی وجہ سے آصف علی زرداری سے بحال ہے۔