جب سے چین کے شہر ووہان سے کرونا وائرس پھیلنا شروع ہوا ہے۔ کروڑوں لوگوں کو بیمار کر گیا ہے۔اور لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔کرونا وائرس کے معاشی معاشرتی نفسیاتی اثرات کے علاوہ تعلیم پر بھی اثر انداز ہوا ہے۔پوری دنیا میں تعلیمی اداروں کو تالے لگ چکے ہیں۔ اور علمی سلسلے جامد ہو چکے ہیں۔ لوگ گھروں میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں۔کرونا وائرس کے تعلیمی اثرات کو کم کرنے کے لیے ہائر ایجوکیشن آف پاکستان نے ایک مثبت اقدام اٹھا کر آن لائن کلاسز کا آغاز کردیا ہے۔ مختلف نیٹ فراہم کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کیے گئے ہیں۔
صبح کے مخصوص وقت میں ارزاں نرخوں پر نیٹ کی فراہمی ممکن بنانے کے معاہدے ہوئے ہیں۔ایچ اے سی کی زیر نگرانی یونیورسٹیوں میں آن لائن کلاسز کا آغاز ہو چکا ہے۔ جو خوش آئند اقدام ہے۔ اچانک آن لائن کلاسز کے آغاز سے بعض پیچیدگیاں جنم لے چکی ہیں اور کچھ مسائل حل طلب ہیں جن کا طالبعلم سامنا کر رہے ہیں۔
اندرون بلوچستان کچھ ضلعوں میں بجلی اور نیٹ کی عدم موجودگی کی وجہ سے طالب علم آن لائن کلاس سے محروم ہیں جس کی وجہ سے ان کا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے۔ انہیں امتحان میں پاس ہونے اور سال ضائع ہونے کی فکر لاحق ہے۔
بعض تعلیمی اداروں میں ہمارے معزز اساتذہ کرام کو آن لائن کلاسز انٹرنیٹ کے استعمال میں دشواری پیش آ رہی ہیچونکہ اس سے پہلے اکثر اساتذہ کرام کو کبھی آن لائن کلاس کی نوبت ہی نہیں آئی تھی۔جب یونیورسٹیوں میں معمول کے مطابق تعلیمی سرگرمیاں جاری تھیں تو ہفتے میں پانچ دن کلاسز ہوتے تھے۔کسی ایک سبجیکٹ کے کم از کم تین دن کلاس ہوتے تھے۔ اور ایک سبجیکٹ کے ہفتے میں تین گھنٹے ملتے تھے۔ پھر جاکر کورس مکمل ہوتا تھا۔ طالبعلموں کی شکایت ہے کہ ہفتے میں ایک گھنٹہ آن لائن کلاس سے وہ کیسے اپنا مکمل کورس مکمل کر سکتے ہیں۔
ایچ ای سی اور بلوچستان کے تمام یونیورسٹیز وائس چانسلر صاحبان احتیاطی تدابیر کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے،میٹنگ کال کرکے بہتر منصوبہ بندی کرکے آن لائن کلاسز کے نقائص کو دور کریں۔ کرونا وائرس سے پہلے تعلیمی اداروں میں صبح 9 بجے سے پانچ بجے تک کلاسز کا سلسلہ جاری تھاجس میں دو بجے سے تین بجے تک نماز کا وقفہ دیا جاتا تھا۔اسی طرح آن لائن کلاسز میں بھی صبح 9 بجے سے پانچ بجے تک پوری کلاسز لی جائے۔ہفتے میں ایک گھنٹہ آن لائن کلاسز سے وہ مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکتے۔
جن ضلعوں میں نیٹ کی سہولت موجود نہیں ہے، فوری طورپر ان علاقوں تک نیٹ کی فراہمی تعلیمی اداروں کے بس کی بات نہیں ہے۔ان کا وقت بچانے اور ان کو پاس کرنے کی کوئی منصوبہ بندی کرنا لازمی ہے۔
نئے اساتذہ کرام میڈیا کے استعمال سے واقفیت رکھتے ہیں۔ ہمارے پرانے معزز اساتذہ کرام کو نیٹ کے استعمال میں مشکلات درپیش ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے ایک ہفتے کے اندر آن لائن کلاس کی ٹریننگ دے کر انہیں اس قابل بنائے کہ وہ اپنا علمی سرمایہ میڈیا کے توسط سے طالب علموں تک منتقل کر سکیں۔یونیورسٹیز ویب سائٹ اور سوشل میڈیا کے توسط سے طالبعلموں سے آن لائن کلاسز کی رکاوٹیں پوچھے اور انہیں دور کرنے کی کوشش کرے یہ اقدامات فوری بنیادوں پر ہونی چاہییں۔ایچ ای سی تعلیمی اداروں کو پابند کرے کہ وہ آن لائن کلاسز سے مستفید طالب علموں کا ڈیٹا معلوم کرے کہ کتنے فیصد طالب علم آن لائن کلاس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اور کتنے فیصد طالب علموں تک نیٹ کی رسائی ممکن نہیں ہے۔طالب علموں کے مسائل کو حل کیا جائے انہیں ذہنی کوفت سے باہر نکالا جائے۔