|

وقتِ اشاعت :   June 14 – 2020

کئی سال سے ہمارے ملک پاکستان میں طرح طرح کے بحران جنم رہے ہیں آج کل پٹرول کا بحران پیدا ہوچکا ہے۔ عوام پیٹرول کے حصول کے لیے دربدر ٹھوکر کھا رہے ہیں۔ پٹرول پمپس پر لوگ کا ہجوم ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے ساری دنیا میں لاک ڈاؤن ہور رہی ہے۔ اس وجہ سے پٹرول کے استعمال میں کمی آئی ہے۔ تقریبا ًتمام ممالک وافرمقدار میں پٹرول ذخیرہ کر چکے ہیں۔ امریکی حکومت کی طرف سے اپنے کو عوام کو کہا گیا تھا کہ حکومت کی طرف سے پٹرول مفت میں لے لیں اور ساتھ ہی کچھ ڈالر بھی وصول کریں کیونکہ حکومت کے ساتھ ذخیرہ کرنے کی جگہ نہ رہی۔

تو ان کا اعلان عوام کو ذاتی لحاظ سے سٹور کرنے کے لیے دعوت دینا تھا۔ اس وجہ سے تیل کی قیمت ریکارڈ طور پر گر گیا ہے۔ حکومت پاکستان نے بھی تیل کی قیمت کافی حد تک کم کی لیکن افسوس یہ ہے کہ یہ ملتا یہی نہیں۔جب مختلف آئل کمپنیوں کو معلوم ہوا کہ روز بروز تیل کی قیمت گر رہی ہے تو انہوں نے تیل خریدنا بند کیا۔ دوسری طرف حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی تو طلب زیادہ ہو اور رسد کم ہوگئی،اس وجہ بحران پیدا ہوا۔میں خو دو دفعہ تیل کے لیے مختلف پمپس پر گیا۔پہلی دفعہ سات گھنٹے کی طویل انتظار کے بعد تیل نہیں ملا،ایک پمپ والے کے ساتھ پہچان تھا، ان کے پمپ پر گاڑی ان کے حوالے کیا۔

جب بھی تیل آجائے تو اس میں پٹرول ڈال دینا۔لیکن چار دن گزرنے کے باوجود میری گاڑی میں تیل نہیں ڈالی گئی اور بغیر تیل کے واپس بھیج دی گئی۔میں گورنمنٹ کالج تیمرگرہ میں بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر ڈیوٹی سرانجام دے رہا ہوں۔ مجھے میرے کالج کے پرنسپل صاحب نے کال کیا کہ کل 9 جون کوکالج میں میٹنگ ہے آپ ضرور شرکت کریں۔ کالج میرے گھر سے اٹھارہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ تو میں اپنے دوسرے موٹر کار سے جانے کا ارادہ کیا لیکن میرے کار نے دو دن پہلے مجھے تیل ختم ہونے کا اشارہ دیا تھا۔ میں سارے راستے میں خوف زدہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ کہیں راستے میں تیل ختم ہو جائے لیکن قسمت نے کالج تک پہنچا دیا۔جب میٹنگ ختم ہوئی،واپس گھر لوٹنے کا ارادہ کیا تو گاڑی میں تیل ختم ہوگئی تھی۔

گاڑی کالج ہی میں چھوڑ کر تیل کے لیے شہر کی طرف چلا گیا۔ بہت سے پمپس کا وزٹ کیا لیکن سب پمپس میں تیل موجود نہیں تھا۔ آخر میں ایک پمپ دیکھا کہ اس میں تیل مل رہا تھا لیکن بہت رش تھا زیادہ گاڑیوں کی لائنیں لگی ہوئی تھیں اور ساتھ ہی لوگوں کی قطاریں بنے ہوئے ان کے ہاتھوں میں گیلنز اور بوتلیں تھیں۔ میں بھی قطار میں کھڑا ہوا لیکن پمپ والا کی طرف سے اعلان ہوا کہ حکومت نے گیلنز اور بوتلوں میں تیل لے جانے پر پابندی عائد کی ہے اس اعلان نے مزید پریشان کردیا۔میں پمپ کے منیجرسے ملنے کے لیے ان کے آفس گیا۔

وہاں پر میرا دوست اسسٹنٹ کمشنر شاہ جمیل صاحب بھی موجود تھا۔وہ بحران کی وجہ سے تمام پمپس کے وزٹ کرتے رہے تاکہ کوئی بدنظمی واقع نہ ہو۔ وہ بہت قابل افسر ہے اس نے مجھے کہا کہ پروفیسر صاحب ڈپٹی کمشنر کی طرف سے ہدایت کی گئی ہے کہ بوتل اور گیلنز میں تیل ڈالنا منع ہے ظاہر ہے کمشنر صاحب کو کسی نے بتا یا ہوگا کہ گلینز کے ذریعے سے لوگ سمگلنگ کر رہے ہیں۔

لیکن شاہ جمیل صاحب نے پمپ کے منجیر کو سفارش کر دی کہ پروفیسر صاحب کے لیے کہیں سے انتظام ضرور کریں۔ پمپ کے منیجر صاحب نے اسسٹنٹ کمشنر صاحب کی بات مان کر مجھے چھ گھنٹے انتظار کے بعد اپنے دوست جو اپنے جنریٹر کے لیے پٹرول خریدرہاتھا ان کو کہا کہ پروفیسر صاحب کو بھیج رہا ہوں ان کو تھوڑا تیل دے دو تو اس شخص نے مجھے تقریباً آٹھ لیٹر تیل دے دیا۔ میں جب تیل کا گیلن ہاتھ میں پکڑے جارہا تھا تو سارے لوگ حیران تھے اور مجھے دیکھ رہے تھے کہ اس نے کس طرح تیل حاصل کیا۔


تقریباً ہر پمپ پر عوام اور پمپ مالکان کوایک دوسرے کے ساتھ لڑتے جھگڑتے دیکھا۔ بعض گاڑیوں میں سخت مریض تھے لیکن تیل نہ ہونے کی وجہ سے گاڑیاں راستوں میں بند ہوچکی تھیں۔میں صحیح اندازہ لگاتا رہا کہ یہ کیا ہو رہا ہے سوچ سوچ کر اپنا کالم بناتا رہا کہ یہ حکومت کتنی بے بس ہو چکی ہے۔ ہر روز نت نئے بحران کاسامنا ہوتاہے اور حکومت کے پاس ان بحرانوں کاکوئی حل موجود نہیں کبھی ٹماٹر،کبھی آٹا، کبھی چینی کا اور کبھی پٹرول کا بحران۔کبھی آپ نے سوچاہے کہ اس ملک میں بحرانیں کیوں پیدا ہوتے ہیں۔

اس کے کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ کمزور حکومت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ہر وقت ہر ادارے پر نظر رکھیں۔دوسری وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے اس نظام میں ہر چیز رسد وطلب کے قانون میں ڈال دی جاتی ہے۔ جس چیز کی رسد زیادہ ہو اور طلب کم ہو تووہ چیز خود بخود سستے دام میں فروخت ہوگی اگر برعکس ہو تو مہنگی ہوگی۔ لوگ سرمایہ دارانہ نظام سے تنگ آچکے ہیں، اس میں بہت سی قباحتیں ہیں۔اس نظام سے سرمایہ دار روز بروز مزید مالدار ہوتا ہے اور غریب روز بروز مزید غریب۔