تعلیمی ادارے بلوچستان میں اتنے ہیں کہ یونیورسٹی میں کسی ڈپارٹمنٹ کی 40 سیٹوں پر 4 ہزار فارم جمع ہوتے ہیں اور بیروزگاری کا کیا کہیں نائب قاصد کی پوسٹ کے لئیے ماسٹر ڈگری کے لوگ بھی دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ہاں اگر وفاق میں کوئی پوسٹ آجائے تو اس پر بھی جعلی لوکل ڈومیسائل کا حامل فرد بلوچستان کے کوٹے پر بھرتی ہوجاتا ہے جس نے کبھی بلوچستان دیکھا بھی نہیں ہوتا۔چلو آتے ہیں اصل موضوع پر، کورونا کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہیں۔ کالجز اسکولز یونیورسٹی میں آن لائن کلاسز کا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن فیصلہ کرنے والے زمینی حقائق سے ہی واقف نہیں کہ بلوچستان کے 65% فیصد علاقوں میں انٹرنیٹ نہیں،ہاں اگر کہیں موجود بھی ہے تو اسکے چلنے کی رفتار کچھوے سے بھی کم ہے یعنی نہ ہونے کے برابر۔
یونیورسٹیاں بند ہیں لیکن پھر بھی فیسوں کا معاملہ رْکتا نہیں، فیس کسی بھی حالت میں طالبعلم کو دینا ہے۔بلوچستان میں انٹرنیٹ تو اپنی جگہ بجلی بھی نہیں۔آن لائن کلاسز کے معاملے پر بلوچستان کے طلباء و طالبات کے ساتھ ساتھ پورے ملک کے طلباء و طالبات سراپا احتجاج ہیں لیکن حکومت اور تعلیمی اداروں کے ذمہ داران خواب خرگوش میں ہیں طلباء و طالبات ذہنی پریشانی اور مایوسی کا شکار ہیں۔ حکومتی ذمہ داران کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا اور کوئی ایسا حل نکالنا ہوگا جس سے طلباء بھی بغیر کسی پریشانی کے مستفید ہوسکیں۔