|

وقتِ اشاعت :   June 14 – 2020

کچھ روز قبل آزاد ی نیوز کے یو ٹیوب چینل کیلئے میں نے ایک وی لاگ ریکارڈ کیا تھا ا س وی لاگ کی ٹیگ لائن رکھی تھی جام نے کمال کردیا اب یہ ٹیگ لائن کیوں رکھی تھی قصہ مختصر وزیر اعلٰی بلوچستان جام کمال نے دسویں این ایف سی ایوارڈ کیلئے جاوید جبار صاحب کو غیر سرکاری رکن نامزد کیاتھا جو کہ ایک زور دار مہم کے بعد رضاکارانہ طور پر مستعفیٰ ہوئے۔ اب جام صاحب نے جو کمال کیا تھا وہ یہ تھا کہ بلوچستان کے وزیر خزانہ سے لیکر وزارت خزانہ کے اہلکار بھی اس تعیناتی پر انگشت بدنداں تھے کیونکہ سب کا خیال تھا کہ یہاں کسی معاشی ماہر جسے فنانس اکانومی اور محصولات کے معاملے پر بھر پور گرفت ہو، اسے ہی نامزد ہونا چاہئے۔

ایسا بلوچستان میں موجودہ حالات میں ایک ہی آدمی ہے چلیں جام صاحب محفوظ صاحب کو تعینات نہ کرتے انکی جگہ کسی دوسرے صوبے کو شخص لاتے لیکن متعلقہ فیلڈ سے لاتے تو دفاع آسان ہوتا اسلئے دفاع میں مشکل ہوئی۔یہ کیوں ہوا اور کیسے ہوا؟ بقول شخصے کہ جام صاحب جاوید جبار سے بہت متاثر ہیں اور جاوید جبار صاحب جام سے اس سے زیادہ متاثر ہیں۔ ایک وزیر نے ہنستے ہوئے یاد دلایا کہ آپ کراچی میں سیاحت کا سیمینار بھول گئے۔بہر حال جام صاحب کے پاس اس تعیناتی کی وضاحت موجود تھی اور ہاں بحیثیت وزیر اعلٰی بلوچستان یہ انکا اختیار تھا کہ وہ یہ تعیناتی کریں اور اسکے لئے انہوں نے نہ اتحادیوں سے پوچھا نہ معاملہ کابینہ کے سامنے رکھا، نہ کچن کیبنٹ سے پوچھا اور تو اور متعلقہ محکمہ بھی لاعلم تھا۔

اور انہوں نے اس فیصلے سے لیکر جاوید جبار صاحب کے مستعفٰی ہونے تک وہ فیصلے کا دفاع کرتے رہے لیکن بلوچستان سے اس تعیناتی پر اٹھنے والے تحفظات کی گونج قومی اسمبلی ڈان اخبار اور ٹویٹر پر بھی سنائی دی۔ اور بالآخر جاوید جبار صاحب نے تعیناتی قبول کرنے کے کچھ عرصے بعد معذرت کرلی اس معذرت سے قبل آخری تحریر ہمارے دوست محمد حنیف نے ڈان میں لکھی تھی بقول شخص و ہی آخری کیل ثابت ہوئی اور جاوید جبار صاحب روٹھ گئے۔ چلیں اس میں بھی کوئی مصلحت ہوگی اب آپ ہر گز یہ نہ سوچیں کہ اس تحریر کا مقصد وزیر اعلٰی بلوچستان جام کمال پر صرف تنقید کے نشتر برسانا ہے۔

جام صاحب نے جو کمال کئے ہیں اور جو کمال وہ کررہے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں ان پر بھی بات ہوگی اس سے پہلے کچھ سمجھنا ضروری ہے وزیر اعلٰی بلوچستان جام کمال کون ہیں سیاست میں کیسے آئے۔ اس بحث میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں لیکن اس سے پہلے یہ جان لیں۔ جب بلوچستان میں انتخابات سے قبل ایک نئی جماعت بننے کی بازگشت سنائی دے رہی تھی بلوچستان میں نواب ثناء اللہ خان زہری کی حکومت ختم ہوچکی تھی۔قدوس بزنجو وزیر اعلٰی کے مسند پر فائز ہوچکے تھے وزیر اعلٰی ہاؤس میں ایک پرانے مسلم لیگی نے ایک دن کہا کہ اب پرانا دور لوٹ کر آئیگا ہم جام یوسف کا نعم البدل لیکر آرہے ہیں پھر ویسا ہی دور ہوگا وزیر اعلٰی ہاؤس میں ہونے والی اس بات پر مجھ سمیت ایک اور شخص زیر لب مسکرا رہا تھا ہم دونوں کا تعلق ہے لسبیلہ سے۔

وزیر اعلٰی ہاؤس کا یہ کم گو افسر تو کچھ نہ بولا ہم سے برداشت نہ ہوا اور ہم بول پڑے، اس غلط فہمی میں نہ رہیئے گا جام یوسف مرحوم اور انکے فرزند جام کمال میں زمین آسمان کا فرق ہے اور زاویئے کی زبان میں ایک سو اسی ڈگری کا فرق ہے۔ اب ہمارا سرکاری افسر دوست صرف اتنا بولا یہ جملے لکھ لو آپکو یاد آئینگے لیکن ہمارے اس وقت کے رکن اسمبلی جو اب بی اے پی کے رہنماء ہیں اسکا بخوبی اندازہ ہوچکا ہوگا۔ اب بات کرتے ہیں جام صاحب نے کیا کمال کئے، دو ہزار تیرہ میں پہلی بار وہ باقاعدہ پارلیمانی سیاست کا حصہ بنے اور آزاد حیثیت میں لسبیلہ کی قومی اور صوبائی اسمبلی سے رکن منتخب ہوئے۔

اس سے قبل وہ ضلع ناظم رہ چکے تھے اور ایک سخت گیر نوجوان ضلع ناظم سمجھے جاتے تھے لیکن صوبے کی سیاست میں والد کی موجودگی کی وجہ سے وہ اتنا موضوع بحث نہیں بنے جتنے سخت وہ اپنے والد کی زندگی میں تھے۔اب ان میں بہت فرق آچکا ہے لیکن اسکے باوجود کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی فیصلے میں لسبیلہ کے والی کا پرانا انداز جھلک جاتا ہے۔ رکن قومی اسمبلی کی نشست پر جب وہ اسلام آباد پہنچے تو وزیر مملکت برائے پیٹرولیم بنائے گئے اور اس وقت میاں نواز شریف کے دور میں جب پیٹرولیم کا بحران آیا تو جب پوری مسلم لیگ کے ہاتھ پیر پھول گئے تو میڈیا میں اور پارلیمنٹ میں صورتحال کو بحیثیت وزیر مملکت انہوں نے ہی سنبھالا تھا۔

یہی وہ دو ر جب بلوچستان پر گہری نگاہ رکھنے والے تھنک ٹینک نے یہ سوچا کہ ان پر مستقبل کیلئے کام شروع کیا جائے اور پھر جب بی اے پی بنی تو میر قدوس بزنجو چاہ کر بھی جام صاحب کو پارٹی صدر بننے سے روک نہ سکے۔ پہلی بار رکن قومی اسمبلی بن کر وزیر مملکت بننے والے جام کمال صرف پانچ ہی سالوں میں تھنک ٹینک کیلئے اتنے اہم ہوئے کہ وہ بی اے پی کے صدر اور وزیر اعلٰی بلوچستان کے امیدوار بھی بن گئے، نہ صرف امیدوار بلکہ اب تو وزیر اعلٰی بھی ہیں۔ وزارت اعلٰی کی مسند پر بیٹھتے ہی جام کمال نے آہستہ آہستہ اپنے سیاسی انکل اور آنٹیز سے تھوڑا فاصلہ اختیار کیا اور اب یہ فاصلہ کافی بڑھ چکا ہے۔

لیکن اب بھی صورتحال کبھی بھی بدل سکتی ہے۔ وزیر اعلٰی ہاؤس کی کال کے منتظر انکل آنٹی آج بھی ہیں جام کمال نے سب سے پہلے جو سیاسی ٹیم بنائی تھی اسے تھوڑا ریسٹ کا ٹائم دیکر کابینہ کی ایک ٹیم بنائی جہاں چاغی سے میر عارف جان محمد حسنی، بلیدہ سے ظہور بلیدی، نصیر آباد سے محمد خان لہڑی اور پشتون علاقوں سے مٹھا خان کاکڑ شامل ہیں۔یہ ایک ایسا کمال ہے جو جام صاحب نے کیا ہے کیونکہ ماضی میں بڑے ناموں بزرگ سرداروں کو وزراء اعلیٰ اپنے ساتھ لیکر چلتے تھے لیکن جام کمال نے جیسے سیاسی انکل اور آنٹیز سے کنارہ کشی کی، وہیں کابینہ میں موجود بڑے ناموں ہیوی ویٹس سے زیادہ ایک نئی ٹیم پر اکتفاء کیا۔

بیورو کریسی میں بھی جن افسران پر جام کمال کا اب تک خصوصی دست شفقت ہے ان افسران کو بلوچستان میں بہتر انداز سے یاد کیا جاتا ہے اور عرف عام میں یہ اپ رائٹ افسر کہلاتے ہیں۔ نام لکھنا چاہتے ہوئے نہیں لکھ رہا کہ یہاں پسند اور ناپسند کے معاملے پر کسی اچھے افسر کیساتھ زیادتی نہ ہوجائے۔ بہت سے فیصلو ں میں ماضی کی بلوچستان حکومت کے وزراء اعلٰی اتحادیوں کو مناتے رہ جاتے تھے اور وقت گزر جاتا تھا ایک اتحادی مناتے دوسرا روٹھ جاتا لیکن اس بار ابتک جام کمال نے اتحادیوں کو ناراض ہونے پر منایاضرور ہوگا لیکن منانے کے کچھ طریقہ کار وضع کرکے رکھے ہیں۔

ماضی کی طرح ہر ناجائز بات فوری نہیں مانی جاتی اب وزراء کو سارا دن وزیر اعلٰی ہاؤس میں ایک پارک کی طرح تفریح کی اجازت نہیں۔وزرا ء ماضی میں جس طرح سیکریٹریز بدلوا لیتے تھے، اب صورتحال ویسی نہیں۔ اتحادی حکومت ہونے کے باوجود اہم محکمے جام صاحب نے اپنے پاس رکھے ہیں اور کسی کو موقع بھی نہیں دیتے کہ وہ کچھ بولیں۔دو سالہ حکومت میں ہر وہ کام کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس سے بلوچستان کی تصویر بدل سکے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد جو قانون سازی بلوچستان کو بحیثیت صوبہ کرنی تھی پچھلی حکومت سیاسی مجبوریوں کے تحت نہ کرپائی۔

ان تمام قانون سازیوں کیلئے مکمل ورکنگ جاری و ساری ہے۔ روزانہ اجلاس، روزانہ بریفنگ اور فالو اپ سیشنز یہی کمال انہوں نے صرف صوبے میں نہیں دکھائے بلکہ انکے کچھ کمالات وفاقی حکومت بھی دیکھ چکی ہے جب چند ماہ قبل سوئی کے حوالے سے پرانے نرخوں پر دوبارہ معاہدے کیلئے جہانگیر ترین کوئٹہ آئے، عمر ایوب اور جہانگیر ترین کو اخلاق کے دائرے میں یہ بتا کر بھیج دیا کہ اب ماضی گزرگیا،بلوچستان کے ساتھ مزید زیادتی نہیں ہوگی۔ سیندک کے معاملے پر کچھ ایس ہی جواب چائینیز کمپنی بھی چند ماہ قبل سن چکی ہے۔ ابھی چند روز قبل حفیظ شیخ کی صدارت میں اجلاس سے واک آؤٹ کر آئے۔


اور پھر معاملہ اٹھا بھی،وفاق نے سنا بھی لیکن اب بھی ذرائع یہ کہتے ہیں کہ وفاق نے بلوچستان کو جو اسکیمات موجودہ بجٹ میں نئے یا آن گوئنگ کے نام پر مختص کرکے دی ہیں، اس پر جام کمال کچھ خاص مطمئن نہیں لیکن ملکی حالات اور معیشت کی صورتحال کیساتھ ساتھ اتحادی حکومت ہونے کی مجبوری نے انہیں روک رکھا ہے ورنہ جو مقدمہ وہ تیار کرکے بیٹھے ہیں اسکے لئے انہیں کم از کم بلوچستان میں سادہ اکثریت درکار تھی اسکے بغیر جام کمال فرنٹ فٹ پر کھل کر نہیں کھیل رے لیکن اسکے باوجود بالز کو اسکی میرٹ پر کھیل رہے ہیں۔

اسلئے بد ترین مخالفت کے باوجود کوئی اب تک کچھ نہ کرسکا تقریبا دو سال گزر گئے ہیں جو فیصلے اس عرصے میں لئے گئے وہ قانون سازی کیلئے اہم تھے اور اسکے فوائد بلوچستان کو ملنے کیلئے کچھ وقت درکار ہے لیکن جو نعرہ اور سلوگن لیکر جام کمال بلوچستان کے وزیر اعلٰی بنے تھے اسکے لئے آنے والے سال اہم ہیں۔ترقی زمین پر نظر آنے کیلئے کچھ بڑے میگاپراجیکٹس مکمل کرنے ہونگے۔

اور خاص کر تعلیم،صحت،امن و امان،پانی اور روڈ سیکٹر کے محکموں میں گڈ گورننس نظر آنی چاہئے،اگر نظر آئیگی تو بلوچستان کا یہ جام مستقبل کی سیاست میں قومی سطح پر کچھ کمال کرنے کی کوشش کرتا نظر آئیگا لیکن اسکے لئے بلوچستان میں کچھ فلیگ شپ پراجیکٹس عوام اور تھنک ٹینک کے سامنے رکھنے ہونگے تب ہی جام کا کمال کمال مانا جائیگا۔