|

وقتِ اشاعت :   June 16 – 2020

پاکستان میں عوام عمران خان کی اپوزیشن کے دور میں باتیں اور تقاریر سنتے تھے تو وہ حیران ہوتے تھے کہ عمران خان کو ملک کاوزیرا عظم ہونا چاہئے تاکہ وہ بہتر سالوں سے ملک اور عوام کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں ظلم و جبر کا خاتمہ کرکے عوام اور ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکیں۔ عوام کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ بھی ان کے جادوئی باتوں پر یقین کر چکی تھی اور عمران خان کو ہی نجات دہندہ سمجھ رہی تھی چنانچہ2018 کے انتخابات میں عمران خان کو وزرات عظمیٰ کے تخت کو تاراج کرنے کا موقع ملا تاہم اپوزیشن نے متفقہ طور پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگانے اور عمران خان کو ملک و عوام پر مسلط کرنے کا الزام لگایا۔

عوام عمران خان کی پہلی تقریر سے ہی انتہائی متاثر ہو ئی اور انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں ملک کے کرپٹ اور خزانہ لوٹنے والوں کا سخت احتساب کا اعلان کیا اور اپوزیشن کے خلاف نیب بھی متحرک ہو گئی۔ نیب نے پہلی فرصت میں مسلم لیگ نواز کے قائدین کا گھیرا تنگ کیا اور ساتھ ہی ملک کے نیک نام بیوروکریٹس بھی گرفتار ہوئے، بیوروکریٹس کی گرفتاری سے ملک کی بیورو کریسی عدم تحفظ کا شکار ہونے لگی اور اسی وجہ سے عمران خان کی حکومت انتظامی طور پر مثبت نتائج دینے میں ناکام ہونے لگی اور ساتھ ہی معاشی ماہرین کی بدولت ملکی معیشت کو مضبوط بنانے والوں نے ہی ملکی معیشت کا کچا چٹھہ نکال دیا۔

لیکن عمران خان بھی باتوں کے دھنی ثابت ہوئے،وہ بھی ایلیکٹیبلز کی ٹیم پر انحصار کرکے پورے کابینہ ان سے ہی منتخب کر لی۔ عمران خان کی حکومت عوام کے سامنے صرف ایک ہی سال میں ایکسپوز ہو گئی تھی اور عمران خان کی حکومت ہچکولے لینے لگی تھی کہ بھلا ہو کورونا کا جو ملکی معیشت اور عوام کیلئے تباہ کن ثابت ہوئی لیکن یہی کورونا عمران خان کی حکومت کیلئے رحمت بن گئی۔ عوام عمران خان کے ناکام پالیسوں سے تنگ آ چکے تھے لیکن کورونا نے عوام کو گھروں میں محصور کر دیا،تین ماہ کے لاک ڈاؤن نے عوام کی کمر توڑ دی روزانہ اجرت والے نان نفقہ کے ہی محتاج ہو گئے صرف ایک ہی طبقہ جو سب سے زیادہ لاک ڈاؤن کی حمایت کر رہا تھا۔

وہ ملازمت پیشہ افراد تھے بلکہ تاجر طبقہ پرائیویٹ سکول،مساجد و مدارس، بزنس کمیونٹی نے لاک ڈاؤن کی مکمل مخالفت کی اور اس لاک ڈاؤن کو ملکی معیشت کیلئے تباہ کن قرار دیا۔ عمران خان کی حکومت نے 2020-21 کے خسارے کا بجٹ پیش کرکے جہاں عوام ملازمت پیشہ افراد کو مایوس کیا وہاں ملک کے کاروباری طبقات اور اپوزیشن نے بھی موجودہ بجٹ کو عوام اور ترقی دشمن قرار دیا اور ساتھ ہی ریاست مدینہ کے والی عمران خان کے منصفانہ، میرٹ اور بلا امتیاز ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات بھی ریت کے دیوار ثابت ہوئے۔

بلوچستان میں جام کمال خان کی بلوچستان عوامی پارٹی عمران خان کی مرکزی میں اتحادی اور بلوچستان نیشنل پارٹی بھی مرکز میں پی ٹی آئی کی اتحادی ہے اور دونوں کی سیاست بلوچستان کی ترقی اور محرومیوں کا خاتمہ کرنا اور بلوچستان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سترسالہ سلوک کا خاتمہ کرنا ان کی اولین ترجیحات میں شامل ہے گو کہ بلوچستان نیشنل پارٹی صوبے میں اپوزیشن بینچوں پر اور مرکزی میں حکومتی بینچوں پر براجمان ہے اور بلوچستان کے حقوق اور محرومیوں کے خاتمے کیلئے حکومت کو چھ نکات پیش کئے-حکومت کی یقین دہانی پر اور بلوچستان کی ترقی کی خاطر ریاست مدینہ سرکار کا حصہ بن گئی۔

لیکن وفاقی کابینہ میں شامل ہوئے بغیر اپنے چھ نکات کیلئے ہمیشہ اسمبلی اور اہم فورمز پر آواز بلند کرتے رہے اور دو تین دفعہ حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان بھی کیا لیکن جہانگیر ترین کے منانے پر حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں لیکن ان دو پارٹیوں کی حکومتی اتحاد میں شامل ہونے کے باوجود بلوچستان کو وفاقی بجٹ میں مکمل نظر انداز کیا گیا۔ جو حکومت ریاست مدینہ طرز حکومت کا نعرہ لگا رہی ہو وہی حکومت ریاست کے پسماندہ اور ملک کے نصف رقبے پر محیط صوبہ کو نظر انداز کرے تو پھر حکومت کے قول و فعل میں حقیقی معنوں میں تضاد ہوتا ہے اور اسی تضاد کو عمران خان نے حقیقت کا روپ دیگر وفاقی بجٹ میں بلوچستان کو نظر انداز کرکے ثابت کر دیا۔

بلوچستان کو چند چھوٹے منصوبے دیکر باقی 42 اہم اور بڑے منصوبے مسترد کرکے بلوچستان کی پسماندگی محرومیوں اور عدم ترقی پر مہر ثبت کر دی جس صوبے کے عوام تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم ہوں، جہاں امیر ترین خطے کے باسی صومالیہ ایتھوپیا کے لوگوں سے بھی کمتر زندگی گزارنے پر مجبور ہوں،وہاں حکمران صوبے کو نظر انداز کر رہے ہوں لیکن اس کے باوجود ہمارے بلوچستان کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں بلوچستان عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی حکومتی ایوان کی راہداریوں میں عیش و عشرت کرتے ہوں، وزارتوں کے مزے لیتے ہوں۔

وہاں عوام کو کون پوچھے گا اور ہاں بلوچستان کے عوام اگر باشعور ہوتے تو ان ستر سالوں سے اسی طرح کا حکومتی سلوک ان کے ساتھ روا نہ رکھا جاتا لیکن مجھے تعجب ہے کہ بلوچستان اور صوبے کیلئے سیاست کرنی والے بی این بی سمیت صوبے کی دیگر پارٹیوں کی وفاقی بجٹ پر خاموشی اپنی سابقہ تنخواہ پر گزارہ کرنے کے ہی مترادف ہو سکتا ہے۔بلوچستان کی پسماندگی اور محرومیوں کے ذمہ دار بلوچستان اسمبلی کے اراکین ہی ہیں انہوں نے کبھی بھی صوبے کے حقوق کیلئے کردار ادا نہیں کیا- پتہ نہیں ہمارے صوبے کے اراکین منتخب ہونے سے قبل شاید اس طرح کا کوئی معاہدہ کرتے ہونگے کہ ہم کبھی بھی اور کسی بھی ناانصافی پر خلاف ضابطہ کوئی بات نہیں کریں گے۔

کسی بھی اپنے آقا کی نافرمانی کا نہ تو موجب بنیں گے اور نہ ہی کوئی بے ادبی کرنے کا موقع دیں گے۔وفاقی بجٹ پر سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے کہا کہ بلوچستان کے عوام نے دہشت گردی، غربت اور پسماندگی کے خلاف طویل جدوجہد کی ہے مگر اس کے باوجود وفاق نے بلوچستان کے حقوق دینے کی بجائے ان پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ وفاق اب اپنے رویئے میں تبدیلی لائے اور بلوچستان کے عوام پر مزید مظالم ڈھانے کی بجانے وفاقی پی ایس ڈی پی میں جو شیئر ملتے ہیں ان کو دیا جائے۔

اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ پر اب کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے اگر وفاق نے اٹھارویں ترمیم کو چھیڑنے کی کوشش کی تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہونگے وفاق کا رویہ بلوچستان کے ساتھ ٹھیک نہیں۔ہمیشہ ہمارے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے اب بھی وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے 42 منصوبے نکالے گئے ہیں جس کی ہم مذمت کر تے ہیں۔جبکہ نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر سینیٹر میر کبیرجان نے کہا ہے کہ تبدیلی سرکار نے 71 کھرب 37 ارب روپے کے وفاقی بجٹ میں بلوچستان جو ملک کا نصف حصہ ہے۔

کیلئے صرف دس ارب مختص کرکے ناانصافی کی انتہاء کردی ہے رواں بجٹ میں بھی بلوچستان کیلئے 80 ارب روپے مختص کیے گئے۔مگر ریلیز صرف 14ارب روپے ہوئے جس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ وفاق بلوچستان کی ترقی میں کس قدر سنجیدہ ہے گلگت بلتستان جس کا رقبہ بلوچستان کے قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے بھی کم ہے کیلئے بلوچستان سے آٹھ گنازیادہ بجٹ رکھا گیاہے بجٹ میں بلوچستان کے عام آدمی اور سرکاری ملازمین کیلئے کچھ نہیں، کئی ماہ سے بلوچستان کی دوسیاسی جماعتیں کوئٹہ کراچی شاہراہ کو دورویہ کرانے کا سہرا اپنے قائدین کو دے رہی تھیں۔

بجٹ میں اس کا ذکر تک نہیں وزیراعلیٰ بلوچستان کے احتجاج کے باوجود زیادہ ترمنصوبے بجٹ میں شامل ہی نہیں کیے گئے، بجٹ میں سرکاری ملازمین کیلئے تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیالیکن ایف آئی اے، نیا پاکستان ہاؤسنگ،نیب سمیت مختلف اداروں کے ملازمین کی تنخواہیں پہلے ہی گزشتہ سال ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے کافی بڑھائی گئیں۔ ناقص حکومتی پالیسیوں نے 51 ارب ڈالر کی معیشت تباہ کردی ہے۔ناکام حکومت کورونا کے پیچھے چھپنا چاہتی ہے حکومت فائلر اور نان فائلر کا چکر چلا کر بری الزمہ نہیں ہوسکتی۔

جبکہ دوسری جانب وفاق کی اہم اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ وفاقی بجٹ میں آزاد کشمیر 55 ارب، گلگت بلتستان 32 ارب جبکہ ملک کا 42 فیصد وسیع تر صوبہ بلوچستان کیلئے صرف 10 ارب روپے کا خصوصی پیکج دینے سے واضح ہوجاتا ہے کہ بلوچستان کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا ہے۔ اب موقع ہے کہ بلوچستان کی تمام سیاسی قائدین صوبے کو نظر انداز کرنے پر سخت احتجاج کریں اگر ہو سکے تو بجٹ سے قبل ہی بلوچستان عوامی پارٹی اور بی این پی مینگل حکومتی اتحاد سے نکل جائیں تاکہ وفاقی بجٹ منظور ہی نہ ہو۔

تاہم اس طرح کا امکان جوئے شیر لانے کے ہی مترادف ہے۔ بلوچستان پر سیاست کرنے والوں کا اب تو امتحان ہے اب ایک طرف بلوچستان کی حقوق اور ترقی کا سیاسی موقف ہوگا اور دوسری جانب وزارت کی پر آرائش زندگی ہے۔ کیا کوئی بھی وزارت کو چھوڑنے کی قربانی دے سکے گا،اگراس طرح کا موقف ہمارے بلوچستان کے تمام مرکزی و قوم پرست پارٹیاں اختیار کریں تو بلوچستان حقیقی معنوں میں ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتا ہے لیکن اس عمل کیلئے کون قربانی دے سکتا ہے کون کس کی ناراضگی کا خطرہ مول لے سکتا ہے تاہم بلوچستان سیاسی حوالے سے واحد صوبہ ہے۔

جہاں کے سادہ لوح عوام کو پسماندگی کی دلدل میں اس کے اپنے ہی دھکیلنے میں مصروف ہیں اور ہر انتخابات میں عوام کو پرفریب نعرہ دیکر ان کی حمایت حاصل کی جاتی ہے تاہم اب وقت آگیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی پالیسوں پر غور کرے، صوبے کو وفاق کی ترجیحات میں اولیت دے،بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں پر توجہ دے تاکہ عوام میں پائی جانے والی مایوسی اور پسماندگی کا خاتمہ ہو اور عوام اکیسویں صدی کے ترقیاتی دور سے بہتر طور پر مستفید ہو سکیں –