بلوچستان وفاقی نا انصافیوں کا ہمیشہ سے ہی شکار رہا ہے۔ بلوچستان کی پسماندگی، عدم ترقی اور محرومیوں کا ذمہ دار جہاں وفاق ہے وہاں بلوچستان کے سیاستدانوں کا بھی ہمیشہ اہم کردار رہا ہے بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں کو پورے صوبے کی تاریخ میں تین مرتبہ وزارت اعلیٰ کا منصب ملا جنہیں انتہائی کم وقت ملنے کے باعث اور کچھ اختیارات کی مکمل فراہمی نہ ہونے سے بلوچستان میں ترقی کا عمل جس طرح شروع ہونا چاہئے تھا وہ اسی طرح نہ ہو سکا۔ بلوچستان میں پہلی حکومت قوم پرست و نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماء سردار عطاء اللہ مینگل کوایک سال کے عرصہ تک ملا۔
صوبے میں قوم پرستوں کو خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کی حکومتیں ملیں، بھٹو شہید سے اختلافات کے باعث جب سردار عطاء اللہ خان مینگل کی حکومت کو برطرف کیا گیا تو خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلیٰ مفتی محمود نے بھی احتجاجا ًوزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے دیا جو سیاسی تاریخ میں یکجہتی کی ایک بہترین مثال تھی۔ بلوچستان میں ابتک تک سولہ وزیراعلیٰ منتخب ہو چکے ہیں بلوچستان میں اب تک چار قوم پرست رہنماء وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے ہیں جن میں سردار عطاء اللہ مینگل، نواب اکبر خان بگٹی، سردار اختر مینگل اور ڈاکٹر مالک بلوچ شامل ہیں۔
ان چاروں میں سے کوئی نے بھی پانچ سال تک وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز نہیں رہ سکا یا اپنی معیاد پورے نہ کر سکے۔سردار عطاء اللہ مینگل یکم مئی 1972سے لیکر 13 فروری 1973 تک وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز رہے،نواب اکبر خان بگٹی 5 فروری1989 تا 7 اگست 1990 تک وزیر اعلیٰ رہے، اسی طرح بی این پی کے قائد سردار اختر مینگل 22 فروری 1997 تا 29 جولائی 1998 جبکہ نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ 7جون 2013 تا 23 دسمبر 2015 تک وزارت اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔
جبکہ اسی دوران دیگر وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز رہنے والوں میں جام غلام قادر دو مرتبہ،محمد خان باروزئی، ظفراللہ جمالی، میر تاج محمد جمالی، نواب ذوالفقار مگسی دو مرتبہ،میر جان محمد جمالی، جام محمد یوسف، نواب اسلم رئیسانی، نواب ثناء اللہ خان زہری، عبدالقدوس بزنجو اور جام کمال خان شامل ہیں۔ان تمام میں سے جام محمد یوسف اور نواب رئیسانی نے پانچ سال تک وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز رہے باقی تمام وزرات اعلیٰ پر فائز شخصیات کو پانچ سال سے کم عرصہ ملا لیکن اس کے باوجود بلوچستان ترقی کے ثمرات سے بہرہ مند نہ ہوسکا،اس کا ذمہ دار کون ہے،کن کی وجہ سے بلوچستان ترقی نہ کر سکا،کون صوبے کی پسماندگی اور محرومیوں کا ذمہ دار ہے اس کا بھی تاحال کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔