آج کے اس ترقی یافتہ دنیا کے ممالک کی ترقی کا راز تعلیم کے ساتھ سمجھوتہ نہ کرنا ہے،ان ممالک نے اس راز کو پا لیا تھا کہ اگر ستاروں کے اس پار جھانکنا ہے،سیاروں کو پرکھنا ہو،چاند کا دل چھیر کے راز نکالنے ہوں،خلاء کا تسخیر ہونا ہو یا سات سمندر کی تہہ تک جھانکنا ہو،زمین میں پڑی ہوئی دولت کا انبار اکھٹا کرنا ہو یا پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرکے معدنیات نکالنا ہو،اس راز کو آج کے ترقی یافتہ یورپ و ایشیاء سمیت بہت سے ممالک نے پالیا تھا کہ کیسے ہم اوج ثریا پر پہنچ سکتے ہیں سب سے پہلے انہوں نے اپنے اسکول، کالج، یونیورسٹی سے لیکر ہر اس عمل کی پذیرائی کی جس سے وہ اس دنیا کو اپنی مٹھی میں بند رکھ سکیں۔
آج کے اس ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی نظام کا سرسری جائزہ کرکے آپ یہ محسوس کرسکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے نوجوانوں کو کیسے کارآمد انسان بناکر اس دنیا کو زیر کرنے کی جتن کی ہے،اس جتن میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں،ہر وہ ممالک جو ترقی یافتہ کہلاتا ہے ان کا تعلیمی نظام اتنا آسان وعام فہم ہے کہ نرسری سے لیکر اعلیٰ تعلیم کے حصول تک نوجوانوں کو چنداں مشکلات پیش نہیں آتے۔قابلیت کا راز اور کچھ نہیں، اس کیلئے راکٹ سائنس کی چنداں ضرورت نہیں،سب سے پہلی کوشش یہی تھی کہ کیسے اپنے ممالک میں اپنے نوجوانوں کو تعلیم کی جانب راغب کرسکیں۔
اس بارے میں انہوں نے بہت ساری پرکشش سہولیات کے علاوہ کئی ممالک میں تو تعلیم مفت ہوچکی ہے،دنیا کی اگر آج ٹاپ تعلیمی اداروں پر نظر ڈالیں تو ان ممالک کی کالجز یونیورسٹیاں اپنا ایک ممتاز مقام بنا چکی ہیں،دوسری جانب وطن عزیز کے تعلیمی اداروں پہ نظر دوڑائیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہیں کہ ہم شاید 15 ویں یا 16 صدی میں جی رہے ہیں،یہاں نرسری سے میٹرک تک،کالج سے یونیورسٹیز کی سطح تک آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے،نوجوان طالب علموں کو شروع دن سے اتنا ذہنی تناؤ میں الجھایا جاتا ہے کہ طلباء اس دباؤ تلے دھنستے چلے جاتے ہیں۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے دماغ کھلنے کے بجائے مرجھانے شروع ہوجاتے ہیں،نرسری سے لیکر میٹرک کے طلباء طالبات کی سلیبس پر نظر دوڑائیں،طلباء کے نوٹ بکس اور سلیبس وغیرہ چیک کرلیں،عقل کام کرنا چھوڑ جاتا ہے،ان ننھے کلیوں پر اتنا بوجھ ڈالا جاتا ہے کہ یہ بچے میٹرک تک پہنچتے بہت سی چیزیں گنوا دیتے ہیں۔بلوچستان پاکستان کا پسماندہ ترین صوبہ ہے، بلوچستان زندگی کے ہر شعبے میں پسماندہ ہونے کے ساتھ یہاں تعلیم کا نظام بھی بہت بری طرح متاثر ہے،یہاں کے گاؤں،دیہات کی صورتحال تو قابل بیان نہیں لیکن کوئٹہ گوادر کیچ پنجگور خضدار جیسے بڑے شہروں میں تعلیم کی زبوں حالی کا رونا روئیں۔
یا بلوچستان کے طلباء طالبات کی غریبانہ زندگیوں پر نظر دوڑا کر ان کی قسمت کو کوسیں، ہر ایک میدان قابل رحم و قابل افسوس ہے۔اس جدید دور میں انٹرنیٹ کے بغیر طلباء کو بہت ساری مشکلات پیش آرہی ہیں،کوئٹہ جیسے بلوچستان کے سب سے بڑے شہر میں انٹر نیٹ کنکٹ و ڈس کنکٹ کی شکایات کے علاوہ بلوچستان کے اکثریتی علاقے انٹرنیٹ سے محروم ہیں۔ابھی حال میں وبائی مرض “کرونا”نے پاکستان میں اپنے پنجے گاڑنا شروع نہیں کئے تھے کہ حکومت نے ملک کے تمام تعلیمی ادارے بند کردئیے۔تقریباً چار مہینوں کی بندش کے بعد جب ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے آن لائن کلاسز کے اجرا ء کا اعلان کیا۔
تو بلوچستان کے طلباء میں سراسیمگی و بے چینی پھیلنی شروع ہوگئی۔بلوچستان کے طلباء کو اپنا مستقبل تاریک نظر آنے لگا کہ انٹرنیٹ کے بغیر آن لائن کلاسز کو کیسے اٹینڈ کیا جاسکتا ہے، تقریباً پچھلے ایک مہینے سے بلوچستان کے طلباء سراپا احتجاج ہِیں،ریلیاں، جلسے جلوس کے علاوہ کئی علاقوں میں ایچ ای سی کے فیصلے کے خلاف علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ بھی لگے ہوئے ہیں۔ہمارے یہ نونہال، مستقبل کے ان چراغوں کوروشنی دینے سے پہلے ہی مرجھانے کا بندوبست کیا جاچکا ہے۔آیا ایچ ای سی میں ایسے تنگ نظر یا قائدانہ فیصلوں سے عاری لوگوں نے ڈیرے جمائے رکھا ہے۔
یا ان کو خبر ہی نہیں کہ بلوچستان میں انٹرنیٹ کی سہولیات کا فقدان ہے۔کچھ سال پہلے مکران کے علاقوں کی ابتر صورتحال کو دیکھ کر حکومت نے ان علاقوں کے 4G کو بند کر رکھا ہے،پی ٹی سی ایل کا تو پہلے ہی برا حال تھا،کیچ و پنجگور جیسے بلوچستان کے بڑے شہروں جہاں کوئٹہ کے بعد طلباء کی کثیر تعداد ان علاقوں کے رہائشی ہیں 4g کی بندش سے شدید مایوس ہیں۔
حکومت سمیت ارباب اختیار سے دردمندانہ اپیل ہے کہ 2015 کے بعد سے اب تک ان علاقوں میں امن و امان کی صورتحال کافی تسلی بخش چلی آرہی ہے،ارباب اختیار کو اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کی ضرورت ہے کہ انٹرنیٹ کے بغیر بلوچستان کے نوجوانوں کا مستقبل کہیں اندھیروں میں ڈوب نہ جائے۔اب الحمد للہ حالات اس نہج ہرپہنچ چکے ہیں کہ حکومت اور متعلقہ ادارے انٹرنیٹ کے ذرائع کو مزید بہتر اور 4G کو دوبارہ سٹارٹ کیلئے کسی فیصلے پہ پہنچ جائیں،قوی امید ہے کہ ایچ ای سی اپنے فیصلے پر نظرثانی کر کے بلوچستان کے طلباء کو مزید احساس کمتری کا شکار ہونے سے بچائے گی۔