|

وقتِ اشاعت :   June 21 – 2020

جس طرح آپ سب جانتے ہیں کورونا وائرس جوکہ ایک عالمی وباء ہے جس نے پوری دنیا کولپیٹ میں لے رکھاہے اور پاکستان بھی اس سے بہت متاثر ہورہا ہے جسے مدِ نظر رکھ کر پورے ملک کے تعلیمی ادارے گزشتہ کئی عرصے سے بند ہیں۔حالیہ دنوں میں ایچ ای سی کی جانب سے ملک کی تمام یونیورسٹیوں میں آن لائن کلاسزکے اجراء کا فیصلہ کیا گیا لیکن اس کے ردِ عمل میں ملک کے تمام طلباء و طالبات سراپا احتجاج ہیں جنکا مطالبہ صرف یہی ہے کہ ملک بھر میں ایسے علاقے ہیں جہاں انٹرنیٹ موجود ہی نہیں ہے وہاں انٹرنیٹ مکمل طور پر بحال کیا جائے اور جہاں جہاں انٹرنیٹ موجود بھی ہے۔

لیکن اسکی رفتار ٹھیک نہیں اسے بہتر بنایا جائے۔ طلباء و طالبات کا کہنا ہے کہ ہم آن لائن کلاسز لینے کو بالکل تیار ہیں لیکن موجودہ صورتحال میں طلباء و طالبات کے ساتھ ساتھ آن لائن کلاسز کے دوران پروفیسرز کو بھی انٹرنیٹ کے مسائل درپیش ہیں جس سے آن لائن کلاسز میں طلباء کو دشواری پیش آرہی ہے اور طلباء انٹرنیٹ، بجلی، موبائل و دیگر سہولیات کی عدم موجودگی کی وجہ سے کلاسز لینے سے قاصر ہیں۔ اگر بلوچستان میں دیکھا جائے تو یہاں کے بیشتر اضلاع میں تو انٹرنیٹ بالکل ہے ہی نہیں جس پر چاہے سینیٹ ہو یا قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی یہاں کے منتخب نمائندوں نے اس مسئلے کو کئی بار زیر بحث لایا لیکن ہوا وہی محض تسلیاں اور سیکورٹی مسئلہ بتا کر کہا جاتا ہے کہ وہاں انٹرنیٹ بحال نہیں کی جاسکتی۔

جب حکومت اور ایچ ای سی ان معاملات سے بخوبی واقف ہیں تو اس طرح کے غیر سنجیدہ فیصلے کرنا کیاطلباء و طالبات کے ساتھ زیادتی کے مترادف نہیں۔ بلوچستان میں تو بجلی بھی نہ ہونے کے برابر ہے یہاں کے طلباء و طالبات کی اکثریت غریب ہے وہ مہنگے پیکیجز کرانے سے قاصر ہیں جس سے وہ آن لائن کلاسز کا حصہ نہیں بن سکتے۔ایچ ای سی کی جانب سے زمینی حقائق کو بغیر دیکھے سمجھے اس طرح کے فیصلے کرنا مایوس کن ہے جبکہ یونیورسٹی کلاسز بھی بند ہیں لیکن اسکے باوجود ملک بھر کی یونیورسٹیاں فیسیں وصول کر رہی ہیں۔

گزشتہ روز بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ کی جانب سے بھی ایک مراسلہ جاری ہوا جس میں تمام طلباء کو مطلع کیا گیا کہ محض دو دن کے اندر اپنی فیس جمع کرادیں جوکہ طلباء کے ساتھ نا انصافی ہے، جب کلاسز بند ہیں تو یونیورسٹی کی جانب سے فیس لینے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا لیکن یہاں اندھا قانون ہے۔آن لائن کلاسز میں ذہین و محنتی طلباء و طالبات جو مستقبل میں گولڈ میڈلسٹ بن سکتے ہیں لیکن اگر آن لائن کلاسز کے دوران ان کے پاس سہولیات میسر نہ ہوں تو وہ کلاسز لینے سے محروم رہ جائینگے جس سے انکی ڈگری میں سیکنڈ، تھرڈ ڈویژن یا سپلی کی مہر لگ جائے گی جوکہ انہیں مستقبل میں اچھی ڈگری حاصل کرکے یونیورسٹی سے فارغ ہونے میں بہت بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔

بلوچستان کے طلباء و طالبات بھی دورِ جدید کی انسہولیات سے فائدہ حاصل کرنے کے حق میں ہیں لیکن روزِ اول سے بلوچستان کے لوگوں کے نصیب میں محرومیاں ہی محرومیاں ہیں جس سے یہاں کے لوگ مایوسی کا شکار ہیں۔ حکومت وقت کو چائیے کہ بلوچستان بلکہ ملک بھر کے اْن علاقوں میں انٹرنیٹ بحال کرے جہاں انٹرنیٹ موجود نہیں اور طلباء کو آن کلاسز کے حوالے سے سہولیات دی جائیں تاکہ وہ بغیر کسی دشواری کے اپنی کلاسیں جاری رکھ سکیں۔آج طلباء و طالبات اس عالمی وباء کی موجودگی میں اپنی جانوں کو داؤ پر لگاکر سراپا احتجاج ہیں لیکن ایچ ای سی اور حکومت دونوں خواب خرگوش میں ہیں۔

خدارا مستقبل کے ان معماروں کی دادرسی کی جائے، آن لائن کلاسز کے حوالے سے درپیش مسائل پر غور کرکے ایک ایسا فیصلہ کیا جائے جس سے کوئی طالبعلم کلاسز لینے سے محروم نہ رہ سکے اور با آسانی اپنی تعلیم جاری رکھ سکے۔ ایچ ای سی بہتر حکمت عملی بنا کر جلد از جلد اس مسئلے کو حل کی طرف لے جائے۔