ہم نے جس راج میں آنکھ کھولی اس راج میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی پہ پی ٹی وی کو پایا،ایک عمر تک اس سے وابستگی رہی،پی ٹی وی پہ شاندار ڈراموں کے ساتھ ساتھ انٹرٹینمنٹ کے مختلف شوز اور پروگرامز ٹیلی کاسٹ ہوتے تھے جس میں سر فہرست نیلام گھر تھا۔ہم اسی نیلام گھر کو دیکھتے دیکھتے بڑے ہوئے اور دیکھتے دیکھتے یہ شو اس قدر مقبول ہوا کہ لوگ اس شو کو دیکھنے کے لیے بے تاب رہتے بے صبری سے انتظار کرتے۔اس شو میں مختلف قسم کے سیگمنٹس ہوتے، جنرل نالج اور شعر و شاعری کا سیگمنٹ شو کا سب سے منفرد سیگمنٹ ہوتا اور جو اس شو کی میزبانی کرتے تھے ان سے کون واقف نہیں۔
آج بھی جب ان کی آواز کانوں میں پڑتی ہے ہم اسی دور میں چلے جاتے ہیں۔ شاندارمیزبان، جی میں بات کر رہا ہوں طارق عزیز صاحب کی۔شاندار لب و لہجے اور بہترین تلفظ کے مالک، بارعب مگر دلکش شخصیت کے حامل پاکستان کے پہلے مرد ٹی وی اناؤنسر طارق عزیز بدھ کے روز 84برس کی عمر میں دارِ فانی سے کوچ کر کے عازمِ خلد بریں ہو گئے۔ طارق عزیز قیام پاکستان سے قبل 1936ء میں جالندھر میں پیدا ہوئے۔ تخلیق پاکستان کے بعد،ان کا خاندان ہجرت کر کے ساہیوال میں آباد ہو گیا۔ طارق عزیز یہیں پلے بڑھے اور یہاں سے اپنی تعلیم مکمل کی۔
پھر ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے۔ 1964ء میں ٹی وی کا دور آیا تو اس کے پہلے مرد اناؤنسر کا اعزاز بھی ان کے حصے میں آیا۔ جب پی ٹی پہ1975ء میں سٹیج شو نیلام گھر کا آغاز ہوا تو بطور میزبان اس شو نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا، یہ شو شاید برصغیر میں اپنی نوعیت کا پہلا اور دنیا کے طویل ترین سٹیج شوز میں نمایاں ہے۔ یہ شو انہوں نے اس قدر ہنر مندی اور سلیقے سے کیا کہ بعد ازاں یہ شو انہی کے نام سے منسوب ہو گیا یعنی ”طارق عزیز شو“۔ وحید مراد اور زیبا کے ہمراہ ان کی پہلی فلم انسانیت نے بے مثال کامیابی حاصل کی۔
علاوہ ازیں ان کی یادگار فلموں میں سالگرہ، قسم اس وقت کی، کٹاری، چراغ کہاں روشنی کہاں اور ہار گیا انسان قابل ذکر ہیں۔ طارق عزیز سیاستدانوں میں ذوالفقار علی بھٹو کے بڑے مداح تھے اس وجہ سے وہ پیپلز پارٹی کے زبردست حامی رہے البتہ عملی سیاست کا بھی حصہ بنے انہوں نے 1997ء میں سیاست میں قدم رکھا اور قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
اور دلچسپ بات یہ کہ ان کے مقابل امیدوار موجودہ وزیر اعظم عمران خان تھے۔ طارق عزیز صاحب وسیع المطالعہ ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر بھی تھے۔پنجابی زبان میں ان کا مجموعہ کلام ”ہمزاد دا دکھ“ کے نام سے موجود ہے۔ وہ اخبارات سے بھی جڑے رہے اور کالم نویسی کا بھی ہنر جانتے تھے ”داستان“ کے نام سے ان کے کالمز کا مجموعہ ہے۔ طارق عزیز اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے ایسا ملٹی ٹیلنٹڈ انسان جو زندگی کے تمام جوہروں سے واقف تھا اس نے ریڈیو میں کام کیا،ٹی وی میں بھی خود کو منوایا، ایسے انسان ایوارڈ یا تمغوں کے محتاج نہیں ہوتے یہ قوموں کے شعور کی پرکھ ہوتی ہے کہ وہ ایسے بے مثل انسان کو کس طرح خراج تحسین پیش کرتی ہے۔
“آغوش میں جوآئے تو آرامِ جاں ہوئے
جس دم ہوئے روانہ تو روحِ رواں ہوئے”