ہم ایک اسے دور میں داخل ہوچکے ہیں کہ جس میں قتل، ڈکیتی، قتل و غارت گیری کو عام ہونا ہے، امن اور امان کی دھجیاں اڑنی ہیں، جس کی لاٹھی اس کی بھینس والے حالات جنم لے چکے ہیں،اختیار اور طاقت ایسے افراد کے سپرد کیے گئے ہیں جو انسان نما بھیڑیے ہیں،ایسے افراد جن کا پیشہ ہی قتل و غارت گیری، عصمت دری، اور چوری ڈکیتی ہے کچھ مقاصد کی خاطر ان کو سر پہ چڑھا رکھا ہے،میرا اشارہ کسی ادارہ کی جانب نہیں بلکہ معاشرہ کی جانب ہے، کیونکہ کوئی اچھائی ہو یا برائی ہر چیز کی جنم معاشرے میں ہی ہوتی ہے۔
اور وہ معاشرہ جہاں تعلیم عام اور سب کے لیے ہو، اور اچھی پرورش ہربچے کو ملے، اور سب کو اچھے اور برے کی تمیز ہو،یا معاشرے میں عدل اور مساوات ہو تو ایسے معاشرے امن اور امان کے گہوارے ہوتے ہیں لیکن ایک ایسا معاشرہ کہ جس میں ہم رہ رہے ہیں تمام تر تباہی اور بربادیوں کا گڑھ بن چکا ہے، جہاں منشیات عام ہے، لوگوں نے سرعام گھروں میں منشیات کا اڈہ کھولے ہوئے ہیں۔اور سب سے بڑی بات کہ معاشرہ اس وقت تباہ ہوتا ہے جب میں یا آپ جرم، برائی، ظلم، نہ انصافی یہ سب دیکھنے کے باوجو خود کو اندھا اور بہرہ کرکے اور یہ کہہ کر راہ فرار اختیار کریں کہ مجھے کیا؟ کیا یہاں صرف میں رہتی / رہتا ہوں؟ فلاں اور فلاں کیوں کچھ نہیں کہتے؟آپ یا میں اس لیے چپ رہتے ہیں کہ میں تو ایک سرکاری ملازم / ملازمہ ہوں، میں تو کچھ کرسکتی ہوں نہ کہہ سکتی ہوں۔
معزز قارئین، ایک استاد اگر برائی کے خلاف آواز اٹھانے سے ڈرے، ایک ڈاکٹر اگر قتل و غارت گیری پہ چپ ہو، ایک انجینیراگر مار دھاڑ کے خلاف اٹھے نہیں تو کیا اس معاشرے میں موجود وہ شخص ان سب کے خلاف اٹھے گا جس کہ پاس تعلیم ہی نہیں؟اور جس کہ پاس تعلیم ہی نہیں تو اس میں اچھے اور برے میں فرق کرنے کی تمیز کہاں سے آئیگی؟
آواز اٹھانی ہے، اس ظلم، درندگی اور سفاکیت کے خلاف جو معاشرہ میں جنم لے چکا ہے، ورنہ ہم روز کلثوم اور ملک ناز جیسی ماؤں کو کندھا دیتے ہوئے صرف یہ کہیں گے
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں۔