|

وقتِ اشاعت :   June 24 – 2020

کرونا کی بیماری چائنا کے شہر ووہان سے شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا- جب چائنا اس وبا کی زد میں تھا تو اس وبا کو ہم ‘پاکستانی’ مسلمان بدھسٹ چاہنیز پر اللہ کا عزاب قرار دیتے تھے جب یہ وبا ایران یورپ اور امریکا میں جا پہنچا تو ہم نے اسے غیر مسلموں اور کافروں پر اللہ کا قہر قرار دیا اور اللہ کی طرف سے مسلمانوں پر مظالم کا بدلہ سمجھنے لگے جب پاکستان میں اس بیماری نے پنجے گاڑنا شروع کیا تب بھی ہم نہ مانے اور اسے اب فرقہ وارانہ بیماری کہنے لگے اور اب جبکہ اس بیماری نے پاکستانی میں تباہی پھیلا دی ہے اور ایک لاکھ 60 ہزار سے زائد لوگ اس سے متاثر ہیں۔

اب بھی ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس بیماری کی وجود سے انکاری ہیں حالانکہ حقیقت یہی ہے کہ اس بیماری نے جغرافیہ, مزہب, فرقے, جنس, عمر کو نہیں دیکھا پوری انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لیاہمارے معاشرے کیساتھ یہ مسئلہ ہے کہ ہمیں ہر چیز میں کافروں کی سازش نظر آتی ہے یہی وجہ ہے جہاں باقی پوری دنیا نے پولیو کی بیماری کو ختم کیا وہاں ہمارے ملک میں اب بھی ہمارے بچے پولیو کی وجہ سے عمر بھر معذور ہوجاتے ہیں مجھے ڈر ہے پوری دنیا سے کرونا وائرس ختم ہوجائے گا اور ہم سالوں مزید کرونا کا ورد جاری رکھیں گے۔

اور اس کا زمہ دار بحیثیت مجموعی ہمارا معاشرہ ہوگاہم کرونا کی بیماری کو لیکر کچھ پریشان تو ہیں لیکن ہمارے معاشرے کی اکثریت جس میں پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہیں وہ سماجی روابط اس طرح جاری رکھے ہوئے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں بازاروں میں معمول کا رش کش ہوتا ہے 99 فیصد لوگ بغیر ماسک کے آپ کو بازار میں ملیں گے مساجد میں SOPs کا خیال نہیں رکھا جاتا ہمیں بخوبی علم ہے کہ ہاتھ ملانے سے یہ وائرس ایک شخص سے دوسرے شخص کو منتقل ہوجاتا ہے لیکن ہم بلا جھجک ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے ہیں اور جو ہاتھ نہیں ملاتا اسے ڈرپوک تصور کیا جاتا ہے۔

یہاں مسئلہ 40 روپے کی ماسک خریدنے کا نہیں اور نہ آگاہی کا ہے بلکہ مسئلہ ہمارے رویوں کا ہے شعور کی کمی کا ہیکرونا وائرس کے پیش نظر مسلمانوں کا قبلہ بیت اللہ شریف بند ہوجاتا ہے مسجد نبوی بند ہوجاتا ہے لیکن سعودی عرب میں کوء شخص اس حکومتی اقدام کے خلاف نہیں بولتا اور جب ہمارے معاشرے میں حکومت اور علمائے کرام کے مشاورت سے مساجد میں SOPs کے تحت عبادات کے اہتمام کا کہا جائے تو اسے مزہب پر حملہ تصور کیا جاتا ہیہمیں پتہ ہونا چاہئے ہمارا دین اسلام ایسی وباء صورتحال میں ہمیں کیا درس دیتا ہے اسلامی تاریخ میں شام میں طاعون کی وبا کا واقعہ یہاں قابل زکر ہے۔

18 ہجری میں فلسطین کے شہر عمواس میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی اور دیکھتے ہی دیکھتے عراق اور شام تک پھیل گء حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ پہلے ہی شام کی طرف نکل گئے تھے راستے میں آپ کو طاعون کی وبا کی خبر ملی تو آپ شام کی طرف نہیں گئے وہاں شام میں پہلے سے موجود مسلم فوج جو رومیوں کے خلاف جہاد کر رہے تھے طاعون کیوجہ سے کء صحابہ شہید ہوگئے اور مسلم فوج کی کمان سنبھالنے والے دو صحابہ کی طاعون کیوجہ سے شہادت کے بعد حضرت عمر بن العاس نے جب کمان سنبھالی تو لوگوں کو منتشر ہونے کا کہا اور ایک دوسرے سے دور رہنے کی تلقین کی تب جاکے شام میں طاعون کی وبا ختم ہوگء شدید بارشوں اور سیلاب کی صورت میں “الصلات فی بیوتکم ” ہماری ازان کا حصہ رہا ہے۔

مطلب اپنے گھروں میں نماز پڑھو یہ اسلامی تاریخ کی سوشل ڈسٹینسنگ اور وبا اور آفات سے نمٹنے کی چند مثالیں ہیں اور ایک ہم ہیں جو بجائے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایسی وباء صورتحال سے نمٹیں ہم اسے سازش قرار دیتے ہیں اگر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرتی اجتماعی رویوں کو بدل دیں تو اس کی ابتدا اپنی زات سے کرنا ہوگا اپنی فیملی سے کرنا ہوگا کیا ہم نے اپنے گھروں میں اپنے فیملی ممبرز کو ہاتھوں کو دن میں کئی بار صابن سے ہاتھ دھونے کی تلقین کی ہے کیا ہم سوشل ڈسٹینسنگ کو مدنظر رکھ کر اپنے نجی محفلوں کو محدود کیا ہے کیا ہم اپنے گھر کے چھوٹے بھائیوں کو رش کش والی جگہوں پہ جانے منع کرتے ہیں۔

کیا ہم نے اپنے گھر کے بزرگوں کو باہر نہ جانے کا کہا ہے تاکہ وہ اس بیماری سے محفوظ رہیں مجھے یقین ہے ہماری اکثریت کا جواب نفی میں ہوگا یہی وہ چھوٹی باتیں ہیں جن پر اگر ہم خود عمل کریں گے تو رفتہ رفتہ یہ معاشرتی اجتماعی رویوں کا حصہ بنے گا اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ معاشرتی اجتماعی رویوں میں مثبت تبدیلی آئے گی

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
تم بھی اپنے حصے کی شمع جلائے جاتے

کرونا وائرس کی روک تھام کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنی سماجی روابط کو محدود رکھیں گھر میں صفائی کا خاص خیال رکھیں رش کش والی جگہوں پہ جانے سے گریز کریں گورنمنٹ کی طرف سے وضع کردہ SOPs پر عمل کریں بحیثیت معاشرے کے باشعور طبقہ کی یہ ہم سب کی زمہ داری ہے کہ ہم خود بھی ان ہدایت پر عمل کریں اور اپنے آس پاس لوگوں کو بھی آگاہی دیں یہی صورت ہوگی جب ہم اس وائرس کو شکست دینے میں کامیاب ہوں گے۔