|

وقتِ اشاعت :   June 25 – 2020

صحت مند لوگ ہی صحت مند معاشرے کے عکاس ہوتے ہیں اور انہی سے معاشرہ پروان چڑھتا ہے۔ جو معاشرے صحت مند سرگرمیوں سے محروم ہوں وہاں لوگ ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر منشیات جیسی لعنت کو اپنا لیتے ہیں جس سے معاشرہ دن بدن کمزور ہو جاتا ہے اور نسل نو میں آگے بڑھنے کی لگن آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک کہانی بیلہ شہر کے رہائشی خاتون باجی ماہ جبین کے نوجوان بیٹے ماجد کی ہے جو آٹھ سال قبل اپنے بوائز ہائی اسکول بیلہ کا ایک ہونہار طالب علم ہوا کرتا تھا مگر گھریلو لاڈپن اوردوستوں کی بری صحبت نے ماجد کی زندگی یکسر بدل دی۔

باجی ماہ جبین کہتی ہیں کہ وہ اور ان کے شوہرشہر کے سرکاری اداروں میں ایک چھوٹی ملازمت کرتے ہیں،چار بیٹیاں ہیں اور ان تمام میں بڑ ا ماجد ہمارا ایک ہی بیٹا ہے لیکن وہ گزشتہ دس سالوں سے شدیدنشے کی علت میں مبتلا ہے وہ کہتی ہیں کہ جس نے ہمارے بڑھاپے کا سہارا بننا تھا مگر وہ خود نشے میں لت پت ہو کر آہستہ آہستہ گھر کا سہارا بننے کی بجائے بوجھ بنتا چلا گیا،اکثرمنشیات کے خرید و فروخت کے دھندے کا بھی حصہ رہا ہے،تین بار جیل کی ہوا کھا چکا ہے جس کی وجہ سے خاندان کے افراد شدید کرب میں مبتلا ہیں۔اپنے بیٹے کی تباہی و بربادی کے قصے سناتے ہوئے باجی ماجبین کہتی ہیں کہ ماجد پندرہ سال کی عمر میں اس علت کا شکار ہوا۔

شروع شروع میں ہلکا پھلکا نشہ کیاجس میں سگریٹ،چرس، پھر شراب نوشی تک بات پہنچی اور آج صورتحال یہ ہے کہ وہ ہیروین کے انجیکشن استعمال کرتاہے اور اپنے ہاتھوں،باوزؤں و ٹانگوں کی نبض کاٹ چکا ہے،نہیں پیتا تو مرنے لگتا ہے پیتا ہے تو مارنے لگتاہے،گویا وہ ہمارے لیے زندہ لاش ہے،ماں کہتی ہے کہ ہم ماں باپ کے علاوہ ہمارے خاندان کے افراد نے ماجد بیٹے کو سمجھانے کے لیے ان نو دس سالوں میں کیا کچھ نہیں کیا،پھر جب سمجھانے سے بات علاج تک جا پہنچی تو ہم نے کراچی کے ہر علاج و بحالی منشیات سینٹر میں داخل کروایا۔

مگر جب واپس ماجد بیلہ کی ماحول میں آیا تو دوبارہ نشے کی لت میں مبتلا ہوا،ماہ جبین کہتی ہے میں نے ان نو سالوں کے دوران،اس کے علاج معالجے، اس کے گھر یا صاف ستھرے ماحول میں دل لگی اور منشیات سے دور رکھنے کے لیے ہر خواہش کا احترام کیا، ان پراپنی تمام تر جمع پونچی خرچ کرڈالی، مگر آج بھی اپنے بیٹے کو نشے کی علت سے نہیں نکال سکی،ماہ جبین کہتی ہیں کہ دنیا کا سب سے بڑا بوجھ ماں باپ کے کاندھے پر جوان بیٹے کی اس زندہ لاش کا ہوتاہے جس کو وہ خود برباد کرتے ہیں اور پھر ہوش آنے پرتمام تر کوششوں کے باوجود بھی ٹھیک کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس زندہ لاش سے جان چھڑاسکتے ہیں،نشے کی اس علت کے شکار نوجوانوں کا در د اس خاندان کے افراد ہی جانتے ہیں کہ وہ کس حالت میں اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔

یہ صرف باجی ماہ جبین کے بیٹے کی کہانی نہیں بلکہ ہم اپنے ارد گرد ایسی بہت سی کہانیاں دیکھتے ہیں جنہیں نشے نے موت کے دہانے تک پہنچا دیا ہے۔لسبیلہ کے شہر حب،گڈانی،وندر،اوتھل،بیلہ منشیات کا گڑھ کہلاتے ہیں جن میں منشیات کا دھندہ عروج پر ہے،چند سال قبل شاید اس طرح کے نت نئے منشیات یا پھر نشے کرنے والے افراد اتنے نہیں تھے، جتنے آجکل معاشرے میں پائے جاتے ہیں،منشیات کا زہر ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، ماہ جبین کے خاندان کی طرح کتنے ہی خاندان ایسے ہیں جو نشے میں مبتلا اپنے بچوں کے مستقبل سے نااْمید ہو چکے ہیں۔

ہمارے نوجوان اکثر و بیشتر معاشرتی ردعمل اور نامناسب رہنمائی کی وجہ سے نشے جیسی لعنت کو اپنا لیتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ آج ہماری نوجوان نسل منشیات، شراب، جوئے اور دیگر علتوں میں مبتلا ہو کر نا صر ف اپنی زندگی تباہ کر رہی ہے بلکہ اپنے ساتھ اپنے خاندان والوں کے لیے بھی اذیت اور ذلت و رسوائی کا سبب بن رہے ہیں۔ ملک و قوم کی ترقی اور مستقبل کے ضامن یہ نوجوان جرائم پیشہ ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ نشہ جسم کے ساتھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بھی سلب کر کے رکھ دیتا ہے۔ایسے لوگوں کے پیش نظر صرف نشے کا سحر ہوتا ہے۔

جس کی خاطر وہ ہر حد سے گزر جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنا علاج بھی نہیں کرانا چاہتے کیونکہ ان کے نزدیک یہ وہ بیماری ہے جو انہیں دنیا کے دکھوں سے دور رکھ کر”جنت“ کی سیر کراتی ہے۔ نشے کی تباہ کاریوں کی وجوہات میں خراب صحبت، گھریلو ناچاقی، ازدواجی مسائل، ذہنی دباؤ، بے جا خوف، دین سے دوری، اہل خانہ کو اپنا دشمن سمجھنا، بے وقت کا سونا اور جاگنا شامل ہیں۔ ہمارے ہاں اونچے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نشے کے لیے آئس کرسٹل، حشیش اور ہیروئن کے علاوہ مختلف نشہ آور ادویہ کا استعمال کرتے ہیں۔

جب کہ نشے کی لَت میں مبتلا متوسّط اور نچلے طبقے کے افراد نشہ آور ادویہ، سَستی شراب، چرس، سگریٹ، پان، گٹکے اور نسوار وغیرہ کا سہارا لیتے ہیں،یہ لوگ پھربڑے قسم کے نشے کو پورا کرنے کے لیے جرائم کا سہارہ لیتے ہیں ایک محتاط اندازے کے مطابق، پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 70ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بنے ہیں، جب کہ مْلک میں ہر سال اس سے تین گْنا زائد ہلاکتیں منشّیات کے استعمال کے سبب ہو تی ہیں۔ لسبیلہ میں جہاں محکمہ ایکسائز،کوسٹ گارڈز،انیٹی نارکوٹکس فورس،ایف سی،محکمہ کسٹم،پولیس،لیویز اور دیگر سیکورٹی والے بہت سارے ادارے موجود ہیں۔

لیکن پھر بھی لسبیلہ کے اندر اپنے بڑے پیمانے پر منشیات کا استعمال یقینا سوال اٹھانے کی گنجائش فراہم کرتاہے کہ آخر کیوں لسبیلہ میں ایسا ہورہاہے؟ لسبیلہ میں انسداد منشیات کی کوششوں سے سول سوسائٹی کے کردارسے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ گزشتہ کچھ عرصے میں سول سوسائٹی کے کارکنان حب،گڈانی،بیلہ،اوتھل میں مختلف فورمز پر آواز بلند کرتے آرہے ہیں، جس میں انہوں نے منشیات کے خلاف کمیونٹی میں شعور و آگاہی کے لیے بات کی بلکہ منشیات کے تدارک کے لیے حکومتی اداروں کے ساتھ ایڈوکیسی بھی کی ہے،اورسول سوسائٹی کے تنظیموں کی یہ چھوٹی چھوٹی کوششیں یقینا ان اداروں کے لیے ایک پریشرگروپس ہیں جو لسبیلہ میں منشیات کے تدارک کے لیے کام کررہے ہیں۔

آج منشیات کا عالمی دن پوری دنیا میں منایا جارہاہے اس حوالے سے جہاں دنیا بھر میں انسداد منشیات کی سرگرمیوں کا انعقاد کیا جائیگا وہیں پر لسبیلہ میں بھی انسداد منشیات کے خلاف متحرک دوست بیلہ،اوتھل،وندر،اور حب میں اپنی مختلف سرگرمیوں کا انعقاد کررہے ہیں،میں نے لسبیلہ میں منشیات کے پھیلاؤ کے خلاف، تدارک اور اس کے خلاف آگاہی کے عمل میں شریک مختلف متحرک دوستوں نے بات کی ہے جو کسی نہ کسی فورم سے انسداد منشیات کے خلاف کی جانے والی کوششوں کا حصہ ہیں،اور وہ اپنا رضا کارانہ کردار بخوبی ادا کررہے ہیں۔

شہری رضا کار تنظیم حب کے بانی اصغر چھٹہ کہتے ہیں کہ حب منشیات کا گڑھ ہے،جہاں پر آ پ کو ہرجگہ نشئی افراد اور مافیا کے لوگ ملیں گے جو منشیات کے دھندے میں ملوث ہیں مگر حکومتی اداروں کی کاروائی چھوٹے پیمانے پر ہوتی ہے،منشیات کے تدارک کے لیے بڑے پیمانے پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے،انہوں نے کہاکہ سول سوسائٹی کی آواز کے بعد حکومت نے گزشتہ بجٹ میں علاج و بحالی منشیات کے سینٹر کے لیے پیسے مختص کیے تھے لیکن ایک سال تک اس اسکیم کا پتہ نہیں چلا کہ وہ کام کہاں تک پہنچی ہے،لہذا حکومت کو فوری طور پرعلاج و بحالی منشیات سنیٹر کے منصوبے کو عملی شکل دے تاکہ متاثرین منشیات کا علاج وقت پر ممکن ہوسکے۔

سماجی کارکن سازین بلوچ کہتی ہیں کہ لسبیلہ میں منشیات کا مسئلہ بہت پرانا ہے پہلے شاید یہ مسئلہ ہر ایک کا نہیں تھا لیکن اب یہ مرض ہرگلی اور ہر محلے و گاؤں کی سطح تک پہنچ چکاہے،جس کی وجہ سے نوجوان اور خواتین بھی منشیات کی علت میں مبتلا ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے کاروبار میں شریک ہیں جو معاشرے میں اور بھی خطرناک عمل کی نشاندہی کررہاہے،سازین بلوچ مزید کہتی ہیں کہ منشیات کے تدارک کے لیے سول سوسائٹی اور حکومتی اداروں کو ایک پیچ پر ہونا چاہیے اور یہ تاثر ختم ہوناچاہیے کہ ہمارے ادارے خود منشیات کے فروغ میں شامل ہیں یا پھر وہ ڈرگ مافیا کے ساتھ رعایت برتتے ہیں۔

سیاسی و سماجی شخصیت غلام سرور جمعہ کہتے ہیں کہ لسبیلہ میں منظم سازش کے ذریعے منشیات پھیلا ئی جارہی ہے، منیشات کے خلاف مہم چلانے والے تمام تر سماجی و سیاسی تنظیم کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جہاں سے مشترکہ کوششوں کو فروغ دیا جائے اور ضلع بھر میں منشیات کے حوالے سے آگاہی مہم کے ساتھ ساتھ حکومتی اداروں کو بھر ڈرگ مافیا کے خلاف سخت ایکشن کے لیے مجبور کیا جائے اور پولیس و دیگر انسداد منشیات کے اداروں میں کالی بھیڑوں کو بے نقاب کیا جائے تاکہ منشیات کے پھیلاو کو روکا جاسکے۔

سول سوسائٹی نیٹ ورک برائے انسداد منیشات کے کوارڈنیٹر اور ماہر قانون ایڈوکیٹ محمد عاصم لاسی کہتے ہیں کہ منشیات کے کیس میں پولیس کی طرف سے کیسز کی پیروی کے عمل کی کمزوری ہے جس کی وجہ سے زیادہ تر مقدمات میں گواہان کی شہادت اور برآمدگی کے معاملات میں شکوک پیدا ہوتے ہیں جس کے سبب اکثر ملزمان بری ہوجاتے ہیں،اور اکثر جو پکڑے جاتے ہیں، ان کی جائے گرفتاری،جائے برآمدگی میں تضادات سامنے آتے ہیں اور ان کا فائدہ ملزمان کو جاتاہے عاصم لاسی کہتے ہیں کہ منشیات کے پھیلاؤ کا سبب ایک یہ بھی ہے کہ اکثر ہمارے ہاں نشئی منشیات فروش کی حیثیت سے پکڑے جاتے ہیں اور جب وہ جیل سے نکل کر آتے ہیں تو وہ واقعی منشیات فروش بن جاتے ہیں کیونکہ ان سے تھانے اور جیل کا خوف ختم ہوجاتا ہے۔

لسبیلہ سے تعلق رکھنے والے ماہر نفسیات ڈاکٹر فواد سلیمان رونجھو نے بتایاکہ کہ لوگوں میں نشے کی طرف بڑھتے ہوئے رحجان کی بنیادی وجہ معاشی و معاشرتی عدم استحکام ہے لوگوں کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ جس کے باعث لوگ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے ان کو ہر وقت ذہنی دباؤ، کمپلیکس رہتا ہے اور وہ اس ذہنی تناؤ سے چھٹکارا پانے کیلئے نشہ کی طرف راغب ہوتے ہیں۔جس سے انہیں وقتی طور پر ذہنی سکون ملتا ہے مگر نشہ آہستہ آہستہ ان کے جسم میں سرایت پذیر ہو کر عادت بن جاتی ہے، اگر وہ نشہ نہ کرے تو اس کا جسم مفلوج ہونے لگتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ نشہ سے چھٹکارا دلانا آسان کام نہیں اس کیلئے نشہ میں مبتلا شخص سے نہایت نرمی سے اسے مختلف انجکشن و دیگر ادویات کے ذریعے نشے سے دور لایا جا سکتا ہے اور نفسیاتی طور پر مریض کے اندر نشے کے خلاف امید قائم کی جا سکتی ہے،ڈاکٹر صاحب کا کہناہے کہ انسان کو مریض سے نفرت نہیں کرنی چاہیے مرض سے نفرت کرنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ اس کیلئے حکومت کو چاہئے کہ وہ ہر ضلع میں ری ہیبی ٹیشن سنٹر قائم کرے تاکہ نشے میں مبتلا افراد کو مقامی سنٹروں میں باقاعدگی کے ساتھ ٹریٹمنٹ دے کر اس موذی مرض سے چھٹکارا دلایا جاسکے۔

منشیات کے حوالے سے لسبیلہ کی اس قدر خراب صورتحال میں حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ منشیات کی خرید و فروخت پر پابندی کے ساتھ ساتھ اس کی اسمگلنگ کو بھی مکمل طور پر بند کرے تاکہ ماجد جیسے نوجوانوں کی زندگی بچائی جا سکے،منشیات فر وشی پر پابندی اور ا س کے خلاف کیے جانے والے اقدامات اپنی جگہ لیکن والدین کا اپنے بچو ں پر نظر رکھنے کا عمل انتہائی ضروری ہے۔ بچو ں کے ساتھ ان کے دو ستوں پر نظر رکھیں اور انہیں اچھی صحبت کے فو ائد بتائیں۔ جہاں اْن کے قدمو ں میں ہلکی سی بھی لرزش نظر آئے اْن پر قابو پانے کی کوشش کریں بصورت دیگر زندگی کا یہ اہم ترین سرمایہ ضائع ہو سکتا ہے،یقینا ان تمام تر مشترکہ کوششوں سے ہم منشیات سے پاک لسبیلہ کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔