|

وقتِ اشاعت :   June 26 – 2020

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
26جون، آج ہی کے دن کو ہر سال انسداد منشیات کے عالمی دن کے طور منایا جاتا ہے جس کا مقصد منشیات کے نقصانات کے حوالے سے شعور و آگاہی اور ان کے استعمال، مضر اثرات کے بارے میں مختلف سیمینار و تقریب منعقد کئے جاتے ہیں تاکہ قوم کو یہ علم ہو کہ منشیات ایک زہر قاتل ہے یہ آہستہ آہستہ انسانی جسم کو کھوکھلا کرکے انھیں ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا دیتا ہے یعنی سلو پوائزن ہے۔منشیات کے عادی افراد دنیا و مافیہا سے بے خبر رہتے ہیں نہ انہیں علم کا شوق ہوتا ہے اور نہ ہی گھر بار، بال بچوں کی فکر لاحق ہوتی ہے وہ اپنی دنیا میں مست ہو کر اپنی زندگی اپنے ہی ہاتھوں تباہ و برباد کرتے چلے جاتے ہیں۔

لیکن صرف اپنی زندگی نہیں بلکہ اپنے گھر والوں کی زندگی کے لئے بھی ناسور بن جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباََ ایک کروڑ سے زائد افراد منشیات کا استعمال کررہے ہیں جبکہ ان عادی افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔مگر افسوس کا مقام ہے کہ منشیات اور اس کے تدارک کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے جارہے، منشیات کے عادی افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس مملکت خدا داد پاکستان کے منشیات کے خلاف قائم ادارے کتنے سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

یہ زہر کس قدر تیزی سے پھیل رہا ہے اس بات اندازہ پاکستان کے کسی صوبے کے کسی شہر کے گلی کوچوں میں ڈگماتے، تھرتھراتے گھومنے والے نوجوانوں کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے اور تو اور اب یہ زہرتعلیمی اداروں میں بہت آسانی کے ساتھ جس دیدہ دلیری کے ساتھ بکتا، پیتا اور استعمال ہوتا ہوا نظر آتا ہے اس سے تشویشناک بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ تعلیمی ادارے جہاں علم کی شمعیں روشن ہوتی ہیں جنہیں دانش کدہ کہا جاتا ہے جہاں علم اور آگاہی کا درس دیا جاتا ہے جو مستقبل کے معماروں کی نرسریاں ہوتی ہیں جہاں سیاستدان، سائنس دان، انجنیئر، پائلٹ، دانشور،مدبر، ادیب،محقق پیدا کئے جاتے ہیں۔

لیکن شومئی قسمت سے یہ وبا علمی درسگاہوں میں بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔ 26جون کو جو عالمی دن کے طور پر ہر سال منایا جاتا ہے اس دن کے اغراض ومقاصد بیان کئے جاتے ہیں لیکن اس کے تدارک کے لیے عملی مظاہرہ کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ اس کے مضر اثرات بیان کئے جاتے ہیں مگر روک تھام کے ذمہ دار ادارے اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں پر قابو پانے، منشیات کی ترسیل،نیٹ ورک سمگلروں کا کھوج لگانے اور انھیں قانون کی گرفت میں لانیمیں مکمل ناکام نظر آتے ہیں بدقسمتی سے آجکل نوجوان طبقہ خاص طور پر سکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے طلباء اس لعنت کا بری طرح سے شکار ہو رہے ہیں۔

طالب علم کسی بھی معاشرے کا سب سے حساس طبقہ ہوتا ہے وہ اپنے معاشرے کے اردگرد ہونے والے کسی بھی ظلم زیادتی نا انصافی کے خلاف ہر اول دستے کا کردار ادا کرتا ہے ایک سازش کے تحت تعلیمی اداروں میں منشیات کی ترسیل اور طالبعلموں کو منشیات کاعادی بنا کر بیگانگی کی طرف دھکیلنے کی کوششیں کسی دشمنی سے کم نہیں ہیں کیونکہ کوئی محب وطن شہری اپنے مستقبل کے معماروں کو اپاہج بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔آج حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ والدین اپنے بچوں کو تعلیم دینے سے بھی کترانے لگے ہیں کہ کہیں غلط صحبت کی وجہ سے ہمارے بچے اپنے ہی ہاتھوں بے حس معاشرے کے ہتھے چڑھ کر اپنی زندگی تباہ و برباد نہ کر بیٹھیں۔

اس لئے والدین کو چاہیے خاص طور پر اپنے بچوں کی پرورش میں کوئی کوتاہی نہ کریں اور ساتھ ہی اپنے بچوں اور ان کے دوستوں پر کڑی نظر رکھیں، ملنے جلنے اور گرد و پیش کے حالات،ان کے رویوں اور رجحانات دوست احباب کی خاص طور پر مانیٹرنگ کریں۔خود بھی مذہبی اخلاقی سماجی اقدار کی پاسداری کریں اور اپنے بچوں کی مذہبی سماجی اخلاقی تربیت پر خاص دھیان دیں، تاکہ معاشرے کے بے حس ضمیر فروش درندوں کی صحبت کی پرچھائیاں ان پر نہ پڑیں، انہیں صحت مند کاموں، کھیل و تفریح کی طرف راغب کریں، بچوں کے ساتھ وقت گزاریں اور ان کی سماجی تربیت پر بطور خاص خیال رکھیں۔

یہ بات ذہن میں رہے کہ منشیات صرف ہیرؤن، افیون، چرس، شراب،کرسٹار بھنگ ہی نہیں بلکہ تمباکو نوشی ، سکون آور و نیند آور ادویات کا استعمال، بھی اسی زمرے میں آتاہے۔ہر سال دنیا بھر میں 26 جون کو انسدادِ منشیات کا دن اِس لئے منایا جاتا ہے کہ اس دن کی اہمیت افادیت اور اس کے مقاصد پر روشنی ڈالی جائے اور ساتھ ہی یہ کہنا مقصود ہوتا ہے کہ اِس زہر کے خلاف ہر حال میں جہاد کرنا ہے کیونکہ ہمارے مملکت خدا داد پاکستان بھی اِس خوفناک وبا کا شکار ہے اور آنے والے کچھ برسوں میں یہ ملک کا سب سے بڑا چیلنج بنتا جارہا ہے۔تشویشناک بات تو یہ ہے کہ نشے میں مبتلاہونے والے زیادہ تر نوجوان ہیں۔

اور زیادہ تر کی عمریں تقریباََ 24 سال سے بھی کم ہیں۔جبکہ حب خصوصاً اور ڈسٹرکٹ لسبیلہ میں عموماً نوجوان نسل کی اِس جانب رغبت خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ آج کل منشیات انتہائی آسانی کے ساتھ دستیاب ہے مگر اس کی روک تھام اور سد باب کیلئے کوئی نظام و مکینزم وضع نہیں کی گئی ہے۔ پولیس کاروایتی طریقہ کار اور رسمی کاروائیاں منشیات کے خاتمے کے بجائے اس کے پھیلاؤ میں ممدو و معاون ثابت ہو رہی ہیں۔ حب وندر،بیلہ، اوتھل،گڈانی میں منشیات جس میں دیسی شراب۔ہیروئن۔چرس، کرسٹار،شیشہ، مضر صحت سفینہ، گٹکہ ہر گلی ہر کوچے اور ہر نکڑ پر با آسانی میسر ہے۔

ان جان لیوا نشہ آور اشیاء کے استعمال کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتاہے کہ نشئی افراد اپنا نشہ پورا کرنے کیلئے کسی بھی حد کو عبور کر جاتے ہیں۔ اگر ایسے ہی چلتا رہا تو آنے والے کچھ برسوں میں اتنے افراد دہشت گردی میں ہلاک نہیں ہوئے ہونگے جس قدر منشیات کے زہر سے ہلاک ہوں گے۔جبکہ تحصیل حب کے گرد نواح اور نواحی بستیوں میں اس زہر کو سرے عام شہر اور دیہاتوں میں فروخت کیا جارہاہے۔راتوں رات لکھ پتی بننے کی خواہش رکھنے والے افراد بڑی بہادری سے دھڑلے کے ساتھ اس زہر کو فروخت کررے ہیں۔

مگر بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جہاں ہماری پولیس بڑے موت کے سودا گروں پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے فرضی کاروائیاں کرکے چھوٹے منشیات فروشوں پر ہاتھ تو ڈالتی ہے مگر بڑے سمگلروں اور منشیات کے نیٹ ورک چلانے والوں کے سامنے بے بس نظر آتی ہے اس بات سے یہ امر صاف ظاہر ہے کہ منشیات کے بڑے ڈیلر پولیس انتظامیہ و دیگر سیکیورٹی اداروں سے زیادہ طاقتور ہیں اگر نہیں تو پھر گرفت میں کیوں نہیں آتے۔۔۔حِب بیلہ اوتھل گڈانی وندر میں ان دنوں منشیات کے چھوٹے بڑے اڈوں میں روز افزوں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

اسی طرح منشیات کے عادی افراد کی تعداد دن دگنی رات چوگنی بڑھتی جارہی ہے پولیس ان منشیات فروشوں کے چھوٹے کاروبار کرنیوالوں اورگراموں میں بیچنے والوں کے خلاف بادل ناخواستہ کاروائی کرکے اپنی موجودگی کا احساس تو دلاتی ہے اور نشئی افراد کو مار بھگانے کی کوشش کرتی ہے لیکن یہ جہد لا حاصل ہے کیونکہ جب تک ان کے نیٹ ورک کو نہیں تھوڑا جاتا یہ آنکھ مچولی کا سلسلہ چلتا رہے گا۔ لسبیلہ بلخصوص حب میں منشیات کیخلاف عملی جدوجہد کا آغاز بی ایس او پجار نے 2010 میں شروع کیا تھا۔

جس میں مختلف سیمینارز، ریلیاں،اخباری بیانات کے ذریعے حکومت وقت اور انتظامیہ کو بار بار ان منشیات فروشوں کے خلاف کاروائی اور ان کی پشت پناہی کرنے والے عناصر کی نشاندہی سمیت اس کے نیٹ ورک کے خلاف موثر اور عملی کارکردگی کیلئے پولیس انتظامیہ کسٹمز سی آئی اے لیویز اینٹی نارکوٹکس کو ان کی ژمہ داریوں کا احساس دلاتے رہے اور ساتھ ہی عوام میں شعور آگاہی پیدا کرنے کیلئے اپنی تمام تر صلاحیتیوں کو بروئے کار لا کر منشیات کے استعمال، ان کے نقصانات اور اس زہر کے پھیلاؤ کی روک تھام کیلئے موثر آواز اٹھاتے رہے ہیں۔

جس وقت بی ایس او پجار نے اس تحریک کا آغاز کیا تھا یقیناً وہ کافی کھٹن حالات تھے جس وقت منشیات جیسے ناسور کیخلاف آواز اٹھانا اپنی موت کو دعوت دینے کا مترادف سمجھا جاتا تھا مگر ہم نے کسی مشکل اور رکاوٹ کو آڑے نہیں آنے دیا، سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑے رہے،ہماری جد وجہد کی بدولت عوام میں زبردست شعور بیدار ہوا اور عوام خوف کے ماحول سے نکل کر آج چٹان کی مانند ہر میدان میں ان منفی قوتوں کے خلاف نبرد آزما ہیں جسے ہم اپنی تحریک کی کامیابی سمجھتے ہیں ان مشکلات کو آسان بنانے کیلئے ہمیں کئی پاپڑ بیلنے پڑے اور آج صورتحال یہ ہے۔

سماجی اور شہری تنظیموں میں بھی یہ ہمت پیدا ہو گئی ہے کہ لب کشائی کر رہے ہیں جو ہمارے ساتھ یا انفرادی طور پر منشیات کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں جن میں حب شہری رضاکار منشیات مٹاو نسل بچاو تحریک کے دوستوں کی کاوشیں بھی قابل ذکر ہیں۔ حب اور لسبیلہ بھر میں ان دنوں پولیس کی جانب سے منشیات فروشوں کیخلاف جو کاروائیاں ہورہی ہیں اسے تسلی بخش قرار نہیں دے سکتے لیکن کچھ نا ہونے سے ہونا بہتر ہے بعض جگہوں پر پولیس کارروائی کرتی ہے منشیات پکڑی جاتی ہیں لیکن منشیات فروشوں سے لے دے کر انھیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔