جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ آن لائن کلاسز جوکہ ایچ ای سی کی جانب سے بغیر انٹرنیٹ کرائی جارہی ہیں بلوچستان میں انٹرنیٹ و دیگر سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں جس پر طلباء و طالبات سہولیات کے بغیر آن لائن کلاسز کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔گزشتہ روز جب طلباء و طالبات اپنے جائز مطالبات کے لیے کوئٹہ میں پْر امن احتجاج کر رہے تھے تو کوئٹہ پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج اور گرفتاریاں کی گئیں جسمیں طلباء کے ساتھ ساتھ طالبات کے ساتھ بھی بدتمیزی کی گئی انہیں گھسیٹ کر گاڑیوں میں ڈالا گیا جوکہ حکومت بلوچستان کے لیے شرم کا مقام ہے۔
اور بلوچستان کی روایات کے بھی برعکس اس کے ساتھ ساتھ یہ سب کو پتہ ہے کہ آئین کبھی کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے کو یہ حق نہیں دیتا کہ کسی پرامن احتجاج کرنے والے پر لاٹھیاں برسائے لیکن بلوچستان میں قانون نام کی کوئی چیز ہی نہیں اور ہماری حکومت بھی نا اہل ہے۔گرفتاریوں کے ردِ عمل میں مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں کا بلوچستان اسمبلی کے سامنے دھرنا جاری تھا جسمیں ہم خود بھی شامل تھے۔ طلباء و طالبات کو ذلیل و خوار کرکے پھر ایک حکومتی مذاکراتی کمیٹی دھرنے میں آپہنچی اور گرفتار طلباء و طالبات کو رہا کردیا۔
تھوڑی ہی دیر بعد وزیر اعلیٰ کی طرف سے ایک ٹویٹ کیا گیا کہ ایس پی کوئٹہ کو برطرف کردیا گیا ہے اورطالبات کے ساتھ ناروا سلوک کرنے والی لیڈی کانسٹیبل کے خلاف بھی کاروائی کی جائیگی۔ لیکن طلباء و طالبات کا جو اصل مسئلہ ہے وہ ابھی تک حل کی طرف نہیں گیا جس پر حکومت اور ایچ ای سی بالکل خاموش ہیں۔ آن لائن کلاسز کے حوالے سے نہ سہولیات دی جارہی ہیں اور نہ ہی یہ غیر منصفانہ فیصلہ واپس لیا جارہا تو اس کے خلاف یہ احتجاج تو جاری رہینگے۔حکومت کو چائیے اصل مسئلے کا حل نکالے،کیونکہ بغیر سہولیات آن لائن کلاسزکیسے ممکن ہے۔