|

وقتِ اشاعت :   June 27 – 2020

(حصہ دوم)
پاکستان کی معیشت کورونا وائرس کی وبا سے پہلے ہی شدید دباؤ کا شکار تھی۔ جاری کھاتوں کے خسارے میں 75فی صد کمی آگئی اور مجموعی طور پر مالیاتی ’توازن‘ مثبت ہوگیا، جو جی ڈی پی کا اعشاریہ تین فی صد بنتا ہے۔ ملک کی کریڈٹ ریٹنگ منفی سے مستحکم ہوگئی۔ ”ایز آف ڈوئنگ بزنس کی درجہ بندی میں پاکستان 136سے 108 ویں نمبر پر آگیا۔ کئی تجزیہ کاروں نے معاشی استحکام کے لیے حکومتی اقدامات کا اعتراف کیا اور انہیں بہتری کی راہ پر بڑھتے قدم قرار دیا۔ بد قسمتی سے وبا نے ان کاوشوں کو شدید دھچکا پہنچایا۔ دنیا بھر کی معاشی صورت حال کی طرح وبا سے قبل پاکستان کی معیشت میں آنے والی بہتری گزشتہ مالی سے کی چوتھی سہ ماہی میں وبا کے باعث ابتری میں تبدیل ہوگئی۔ بنیادی اشیائے ضروریہ کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے اختیار کی گئی ہمہ جہت حکمت عملی اور اس کے لیے کیے گئے اقدامات سے وبا کا پھیلاؤ سست ہوا، اس کے ساتھ معاشرے کے پس ماندہ طبقات کو نقدی کی فراہمی اور بحالی کے دیگر اقدمات بھی کیے گئے۔

اسٹیٹ بینک نے مالیاتی اداروں اور قرض داروں کو سہولت فراہم کرنے لیے مراعات متعارف کروائیں اور شرح سود میں بھی کمی کی۔ مالی سال 2019-20کے خاتمے تک وبا نے رفتار پکڑ لی اور ابھی اسے عروج تک جانا ہے۔ مستقبل قریب میں بے یقینی اور عالمی حالات بہتر ہوتے نظرنہیں آتے اور کم از کم اگلے مالی برس تک صورت حال یہی رہنے کا غالب امکان ہے۔ حالات ایسے ہوچکے ہیں کہ انتہائی تجربے کار ماہرین بھی معیشت کو پہنچنے والے دھچکے کا درست اندازہ لگانے سے قاصر ہیں۔ اقتصادی سروے میں بتایا گیا کہ اگلے مالی سال میں شرح نمو منفی 0.38فی صد رہے گی۔ اس میں خدمات کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوگا جو جی ڈی پی کا 61فی صد فراہم کرتا ہے۔ گزشتہ مالی سال کی چوتھی سہ ماہی اس قدر متاثر ہوئی ہے کہ نئی تفصیلات سامنے آنے کے بعد کئی جاری منصوبوں پر نظر ثانی کرناپڑے گی۔ ماہانہ اعتبار سے فروری کے مقابلے میں مارچ کے اندر برآمدات میں 15.6فی صد کمی آئی اور درآمدات 21.2فی صد متاثر ہوئیں۔

ماہ بہ ماہ کے حساب سے تجارتی خسارہ 27فی صد تک سکڑ گیا۔ پیٹرولیم مصنوعات پاکستان کی مجموعی درآمدات کا 30 فی صد بنتی ہیں، عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں گرنے سے جاری کھاتوں کا توازن بہتر ہونے میں مدد ملی۔ تاہم تیل پیدا کرنے والے ممالک میں کام کرنے والے ہزاروں پاکستانیوں کی نوکریوں کو خطرہ لاحق ہے اور ان کی ترسیلاتِ زر میں آنے والی کمی سے یہ مثبت اثرات زیادہ عرصے برقرار نہیں رہ پائیں گے۔ موجودہ حکومت آنے کے بعد پاکستان کے قرضوں میں تقریباً 40فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ملکی قرضہ مالی سال 2018میں 29اعشاریہ 9کھرب روپے تھا جو ستمبر 2019 تک 41.5کھرب روپے ہوگیا۔ آئی ایم ایف کے اندازے کے مطابق پاکستان کے بیرونی قرضے مالی سال 2020تک 113ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے اور اسے اپنی ضروریات کے لیے مزید 27ارب ڈالر درکار ہوں گے۔

ان نازک حالات میں کورونا وبا نے پاکستان کے لیے قرضوں کی ادائیگی میں پہاڑ جیسی مشکلات کھڑی کردی ہیں۔ پاکستان غیر ملکی قرضوں کے لیے، جو 107ارب ڈالر یا مجموعی جی ڈی پی کا 38فی صد ہوچکے ہیں، جی 20ممالک کی جانب سے ملنے والی مراعات سے استفادہ کرسکتا ہے۔ سرے دست پاکستان قرضوں کی ادائیگی کے لیے آئی ایم ایف سے ”ریپڈ فنانسنگ انیشی ایٹو“ کے تحت 1اعشاریہ 4ارب ڈالر کا قرض حاصل کرنے میں کام یاب رہا ہے۔ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے 2.5ارب ڈالر معاونت کا وعدہ کیا ہے۔ اس میں سے زیادہ تر رقوم ایسی ہیں جو ایسے منصوبوں کے لیے جاری ہوئی تھیں جن پر سست روی سے کام ہورہا ہے یا رُک چکا ہے اور اب انہیں کورونا وبا سے متعلق معاونت میں منتقل کردیا جائے گا۔ وبا سے قبل بھی معاشی سرگرمیاں اس قدر سست ہوچکی تھیں کہ حکومت ٹیکس وصولی کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔

کورونا وبا کے بعد آئی ایم ایف نے آئندہ مالی سال کے لیے 3.9کھرب روپے کے ٹیکس اہداف کی توثیق کی ہے جب کہ شارٹ فال 1.6کھرب روپے ہے۔ رواں مالی سال کے ٹیکس اہداف سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ گزشتہ تین مالی سالوں میں ایف بی آر کے جمع کردہ ٹیکس کا حجم یکساں رہا ہے حالاں کہ اخراجات میں 2.6کھرب کا اضافہ ہوا ہے۔ مالی سال 2021کے لیے آئی ایم ایف نے ٹیکس ریونیو 5اعشاری 1کھرب روپے رکھا ہے جس کا مطلب ہے کہ ایف بی آر کو گزشتہ مالی سال سے 1.2کھرب روپے زیادہ ٹیکس جمع کرناہوگا۔ تاہم ایک ایسی معیشت میں جس کی متوقع شرح نمو 2فی صد ہو یہ ہدف ناقابل حصول ہے۔ مالی سال 2020میں مالی خسارہ جی ڈی پی کا 7.5فی صد ہے۔ کورونا وبا کے لیے 1.2ارب روپے کی مراعاتی پیکج کے نتیجے میں مالی خسارہ دو ہندسی ہوسکتا ہے۔ بجٹ 2020-21کا مجموعی حجم 7294.9ارب ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 11فی صد کم ہے۔

اخراجات پورے کرنے کے لیے حکومت آمدن میں اضافے کے لیے کوئی اطمینان بخش اقدامات نہیں کیے ہیں۔ ایک کھرب کے مراعاتی پیکج اور آئندہ مالی سال میں کوئی نیا ٹیکس لگائے بغیر آمدن کے اہداف کیسے حاصل ہوں گے؟ حکومتی اخراجات میں کمی اور آمدن میں اضافے کو ہدف بنانے کے علاوہ قرضوں کی ادائیگی اور دفاعی بجٹ حکومتی اخراجات کا 60فی صد بنتا ہے۔ گزشتہ دہائی میں پاکستان نے دفاع پر جی ڈی پی کا 2.5فی صد خرچ کیا ہے(گزشتہ دو برسوں سے یہ شرح تین فی صد ہوگئی ہے)۔ یہ اس دورانیے میں دفاعی اخراجات کی عالمی اوسط سے کچھ زیادہ ہے۔ اسی دورانیے میں پاکستان نے صحت پر جی ڈی پی کا ایک فی صد سے بھی کم صرف کیا ہے جو اس عرصے میں صحت پر خرچ کی بین الاقوامی اوسط سے 9فی صد کم ہے۔ رواں مالی سال کے لیے ترقیاتی (پی ایس ڈی پی) بجٹ کا حجم 1324ارب روپے ہے جس میں صوبوں کے لے 676ارب بھی شامل ہیں۔

عوام کو ریلیف دینے کے لیے اس بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ بڑے ریٹیلیرز کے لیے سیلز ٹیکس 14سے کم کرکے 12فی صد کردیا گیا ہے اور ہاسپٹل سروسز کے لیے مختص کی جانے والی رقم میں 130.55فی صد اضافہ کردیا گیا ہے۔ غریب اور پس ماندہ طبقات کی مدد کے احساس پروگرام کے لیے 208ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے 30ارب، توانائی اور فوڈ سیکیورٹی کے لیے 180ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے تحت غریب افراد کے لیے ایک کروڑ گھربنانے کے لیے 30ارب،پاکستان ریلوے کے لیے 40ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ لاہور اور کراچی میں وفاق کے زیر انتظام اسپتالوں کے لیے 13ارب رکھے گئے ہیں۔ مالی سال 2020-21میں پاکستان کا دفاعی بجٹ 1.289کھرب پر منجمد رکھا گیا ہے(یہ دراصل 12فی صد زائد ہے۔

تاہم حقیقی معنوں میں گزشتہ سال کی طرح 1.23کھرب جتنا ہی ہے)۔ پاکستان کی معیشت کا مجموعی حجم گزشتہ مالی سال میں 41کھرب روپے رہا جو رواں برس بڑھ کر 45کھرب ہونے کا اندازہ ہے۔ گزشتہ مالی سال مالی خسارہ جی ڈی پی کا 9.1فی صد تھا جو کم ہوکر 7فی صد پر آگیاہے۔ آمدن میں اضافے اور غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کو بالخصوص ہدف بنایا گیا ہے۔ مالی خسارے میں کمی سے قرضوں کو گزشتہ برس کی طرح جی ڈی پی کے 87فی صد تک مستحکم رکھنے میں مدد ملے گی۔ ایف بی آرکے لیے 4.9کھرب وصولیوں کا ہدف ہے جو گزشتہ برس 3.9ارب روپے تھا۔ قرضوں کی ادائیگیاں بجٹ کا سب سے بڑا حصہ لے جاتی ہیں اور اس برس ایف بی آر کی مجموعی ٹیکس وصولیوں کا 60فی صد بنتی ہیں۔ اپنی حکومت کے ابتدائی تین برسوں میں تحریک انصاف کی حکومت نے گزشہ حکومت کے لیے گئے۔

قرضوں کی ریکارڈ 7.7کھرب روپے ادائیگیاں کی ہیں۔ گزشتہ مالی سال میں سبسڈیوں کے لیے 349ارب تھے جو کم کرکے 209ارب کردیے گئے ہیں۔ حکومت مخصوص شعبوں کو سبسڈی دینے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ سول حکومت کے خرچوں میں بیس فی صد کمی کرکے 5.5کھرب سے اسے 4.4کھر پر لایا گیا ہے۔ صحت کے لیے مختص رقم کو دگنا کرکے 25ارب کردیا گیا ہے۔ گزشتہ برس ترقیاتی منصوبوں کی رقم 564ارب تھی جو بڑھا کرکے 650ارب کردیا گیا ہے۔ اس سے معیشت کی بحالی اور روزگار کی فراہمی میں مدد ملے گی۔ ترقیاتی فنڈ میں زیادہ پیداواری شعبوں کو مرکز بنایا گیا ہے(مثلاً بھاشا ڈیم وغیرہ جیسے منصوبے)۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ کے لیے 35ارب روپے کی سبسڈی رکھی گئی ہے جو 300ارب کے تعمیراتی اخراجات میں معاونت کے لیے ہے۔ وزیر اعظم کے احساس پروگرام کے لیے گزشتہ برس 190 ارب روپے رکھے گئے تھے۔

اس سال یہ رقم بڑھا کر 230ارب کردی گئی ہے۔ مختلف صنعتوں میں استعمال ہونے والے 40خام مال اشیاء پر کسٹم ڈیوٹی کم کی گئی۔ کورونا وبا کے باعث سیمنٹ کی پیداوار میں کمی آئی اس لیے فی کلو پیداوار پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی دو روپے سے کم کرکے 1.75روپے کردی گئی ہے۔ سیگریٹ اور مشروبات کے سوا تمام اشیاء پر ایف ای ڈی میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ ایف بی آر کو نادرا، ایف آئی اے، صوبائی ایکسائز اور ٹیکس محکموں کے ڈیٹا تک رسائی دی گئی ہے۔ گوادر بندرگاہ اور گوادر فری زون میں ٹیکس استثنیٰ اور مراعات متعارف کیے گئے۔ وبا کے دوران ایس آر اوز کے ذریعے بھی مختلف سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ اس بجٹ کی تیاری کے مشاورتی عمل میں سو سے زائد ادارے اور افراد شامل ہوئے۔ عمران خان کی معاشی ٹیم کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ٹیکس میں اضافہ کیے بغیر انہیں آمدن بڑھانا ہوگی۔ وبا پر قابو پانے کے اقدامات میں بھی ٹیکس کا اہم کردار ہے۔


تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے کے لیے ہماری معاشی ٹیم کو بڑے حوصلے کا مظاہرہ کرنا پڑا۔ معیشت کو دستاویزی شکل دینے کے لیے یہ بہت اہم موقع بھی ہے، وبا پر قابو پانے کے لیے ہمیں یوں بھی ڈیجیٹل ذرائع لین دین کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے اور اس سے معیشت کو دستاویزی شکل میں لانے میں بھی مدد ملے گی۔ اسی لیے آسان موبائل اکاؤنٹ پاکستان کے جان بچانے کی دوا جیسا کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس مخالفت کرنے والوں کے اپنے مخصوص مفادات ہیں۔ بعض اپنے کارپوریٹ کے منافعے کا تحفظ کررہے ہیں اور بعض کارپوریٹ میں اپنی حصے داریوں کی حفاظت کررہے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی ایسے کرتوتوں کا حساب لیا جاتا۔ میں دو سال صبر کرنے کے بعد پاکستانی عوام کو اپنے لالچ کا یرغمال بنانے والے ان افراد کے نام عام کردوں گا۔ آپ یقین نہیں کریں گے کہ کروڑوں لوگوں کی امیدوں کی راہ میں مٹھی بھر لوگ رکاوٹ ہیں؟ صرف اس لیے کہ میرٹ پر وہ مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں؟ 15میں سے کسی ایک کے پاس اسٹیٹ بین کی برانچ لیس بینکنگ کی اجازت نہیں؟ ہمارے کرپٹ نظام میں بعض ریگولیٹر بدقسمتی سے سمجھوتے کرتے ہیں اور ایک خاص فرد کو گزشتہ 18ماہ سے مایوسی کا سامنا ہے۔

بحران سے نکلنے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ زمام کار کن لوگوں کے پاس ہے۔ ہمیں خوش قسمتی سے وفاقی وزارت خزانہ میں ڈاکٹر حفیظ شیخ اور نویدکامران جیسے ٹیکنو کریٹ میسر ہیں۔ سونے پر سہاگا اسٹیٹ بینک میں گورنر رضا باقر کی قیادت میں ایک بہترین ٹیم موجود ہے۔ اگرچہ پاکستان میں قابلیت نقص تصور ہوتا ہے لیکن اس قابل ٹیم کے مخالفین کو حسد کی آگ کا مزہ چکھنا پڑ رہا ہے۔ موجودہ حالات میں سے ملک کو نکالنے کے لیے علم اور مہارت کے ساتھ جرات اور حوصلہ مندی بھی درکار ہے۔ حکومت کی معاشی ٹیم نے تمام مشکلات کے باوجود بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کے ناقدوں کا شور غوغا اپنی جگہ اپنا کام لگن اور دیانت سے کرنے والوں کی پذیرائی ہونی چاہیے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)