آج قلم لئے میں اپنے ذہن کی اْلجھی سوچوں کو شکل تو دے رہی ہوں مگر کیسے کسی کے درد کو زبان دوں۔ کئی سال پہلے آزادی کی جدوجہد کی گئی اور بے انتہا قربانیوں کے بعد ہم آزاد ہوئے،اپنا وطن پایا اور ساری دنیا میں مسلمانوں کی طاقت کو منوایا مگر افسوس کہ ایک دلکش اور خوبصورت حصہ ایسا رہ گیا جو آزاد نہ ہوسکا۔ وہ حصہ جسے اللہ نے بے انتہا خوبصورتی سے نوازا ہے۔ مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ جنت سی پرْکشش جگہ بھی کسی دن آگ کی لپیٹ میں آکے جھلس جائے گا۔ بچپن سے اب تک سنتے آرہے ہیں کے کشمیر آزاد ہوگا ایک دن مگر آج تک کوئی عملی نمونہ نظر نہیں آیا۔
کچھ عرصہ پہلے جب کشمیر کی وادیوں میں مسلمانوں کو قید کردیا گیا، ان سے آزاد جینے کے سارے حق چھین لئے گئے، ان کی عزتیں اپنے گھر تک میں محفوظ نہ رہیں تو کشمیر جو کبھی خوبصورتی اور امن کی علامت سمجھا جاتا تھا وہ کشمیر پھر خوف،ڈر اورظلم کا گڑھ بن گیا۔ تاریخ پہ نظرثانی جب کی تو معلوم ہوا کہ کشمیر کو فتح کرنا مسلمانوں کے لئے کبھی آسان نہ تھا پھر چاہے وہ سلطان عبدل حمید کے دور کی بات کی جائے یا دورِ آزادی کی بات ہومگر وہ دن باقی دنوں سا نہ تھا جب سلطنتِ عثمانیہ کے وارثوں نے کشمیر میں امن کا جھنڈا لہرا کر ساری دنیا کو بتا دیا کہ ہم مسلمانوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ سب بدل گیا۔
کافروں نے طرح طرح کی سازشیں کرکے ہمیں جدا کردیا اور مغربی طور طریقے اپناتے ہوئے ہم نے اپنی ہی ثقافت کا گلہ گھونٹ دیا۔ایک دور تھا جب ہر طرف بس ایک ہی آواز گونجتی تھی۔ ایک ہی صدا در و دیوار سے آکر لگتی تھی (آزادی)۔وقت گزر گیا اور آج پھر نہ جانے کتنے لوگ طلبِ آزادی لیے اِدھر سے اْدھر بھٹک رہے ہیں۔ ‘آزادی’ لفظ کا مطلب سمجھ آرہا ہے اب؟ آج پھر ایک یزید نے ظلم عام کر دیا ہے۔ انسان اور حیوان کے فرق کو مٹا دیا ہے۔ آج نہ جانے کتنے کشمیری اہلبیت کے نقش قدم پر چل کے صبر کئے ہوئے ہیں۔ دل ہی دل اللہ سے دعا مانگتے ہونگے۔
اور کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ مظلوم کی فریاد رد کردے؟ آہ۔۔۔۔ اللہ بہترین انصاف کرنے والا ہے۔ آج ساری دنیا گھروں تک محدود ہوگئی ہے۔ آج ہر انسان آزادی کے لیے چیخ رہا ہے۔ بیماری سے آزادی، موت سے آزادی، درد سے آزادی، انتظار سے آزادی۔ اپنے پیاروں کے بچھڑنے کا کرب کیا ہوتا ہے اب معلوم ہوا مگر افسوس ہم میں بھلا کون مختار بنے گا۔ کون یزیدیت کو مٹائے گا۔یاد رہے اس قید سے نجات کشمیریوں کی آزادی سے منسلک ہے۔ اس درد سے آزادی کشمیر کی ماں، بہنو ں کی ہنسی سے جڑی ہے۔ آؤ مل کر اس دور سے ظلم کو مٹاتے ہیں۔ آو سب مل کے مختار بن جاتے ہیں۔
آو مل کر تاریخ لکھتے ہیں۔حق اگر سربلند ہوجائے تو باطل خود ہی مٹ جاتا ہے۔ حق و باطل کی جنگ میں حق ہمیشہ اونچا نظر آتا ہے۔ کاش دنیا بھر کے مسلمان یہ جان لیں کہ اگر مسلمان جڑ جائیں توکوئی جھوٹی طاقت انہیں نہیں مٹا سکتی۔ وقت لگے گا مگر امید کی کرن ہر انتظار پر بھاری ہے۔ بچپن میں نانی سے کہانیاں سنتے تھے کہ کیسے کئی بار مشکل وقت میں اللہ کے بہادر اس دُنیا مطلب میں نمودار ہوئے جنہوں نے نہ صرف ظلم کو مات دی بلکہ اسلام کے پرچم کے لئے اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کی۔ آج لوگ ان بہادروں کی کہانیاں سن کر خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔
مگر افسوس کوئی اس ماں کے آنسو دیکھ کر جوش میں نہیں آتا جو چیخ چیخ کر کہتی ہے کہ اب اور کتنے لال دوں میں اپنے۔ اب اور کتنے چراغ گل ہونگے لئے طلبِ آزادی۔
ویسے تو ہم سوشل میڈیا پربیٹھے بہت بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں مگر کوئی اپنی ذاتی زندگی سے خدمتِ انسانیت کے لیے چند لمحے نہیں نکال سکے۔کوئی اس روتی ماں کے آنسو نہ پونچھ سکا۔ ہمیں اپنے حالات بدلنے ہونگے۔ بس تھک چکے ہیں ہم سن سن کے کہ اچھا وقت آئے گا۔
آؤ سب مل کر کچھ کر کے دکھاتے ہیں
آؤ اپنے حالات اچھے بناتے ہیں۔
آؤ مل کر تاریخ لکھتے ہیں
آؤ ایک قلم بنا کر کشمیر لکھتے ہیں۔