کسی بھی معاشرے میں اس کا نظام تعلیم ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس ملک و ملت کا مستقبل ان نوجوانوں سے وابستہ ہے جو تعلیمی اداروں میں شب و روز حصولِ علم کیلئے تگ ودو کررہے ہیں۔ اس وجہ سے ہر حکومت کے بنیادی فرائض میں یہ شامل ہے کہ وہ تمام باشندگان قوم کیلئے حصول تعلیم کے ذرائع پیدا کرے اور ان تعلیمی اداروں کو حکومتی اخراجات مہیا کرکے امیر اور غریب بچے کے تعلیم میں امتیازی فرق کو ختم کرے۔ چنانچہ تمام ترقی یافتہ ممالک میں بجٹ کا خاصہ حصہ نظام تعلیم کی بہتری اور اسکو معیاری بنانے اور طلباء کو سہولیات فراہم کرنے کیلئے مختص کیا جاتاہے۔
لیکن افسوس کہ پورے عالم اسلام میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص نظام تعلیم دگرگوں ہے اور ہمسایہ ممالک کی نسبت شرحِ خواندگی کم ہے۔ 2018 کی رپورٹ میں پاکستان میں شرحِ خواندگی 70 فیصد کے لگ بھگ تھی اس میں وہ افراد بھی شامل ہیں جن کو صرف اردو میں اپنا نام لکھنا آتا ہو۔ ابھی حالیہ عالمی رپورٹ کے مطابق 750 عالمی یونیورسٹیوں میں کو پاکستانی یونیورسٹی نام نہ بنا سکا۔یہ ہماری تعلیمی کارکردگی ہے لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے تعلیمی ادارے اور زیادہ متاثر ہوئے چنانچہ تین ماہ کے لگ بھگ تمام عصری و دینی جامعات بند رہے۔
وزارتِ تعلیم کی طرف سے اس تعلیمی نقصان کی تلافی کیلئے یہ صورت اختیار کرنے کی کوشش کی گئی کہ گھروں میں آن لائن پڑھائی کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ یہ فیصلہ ان علاقوں کیلئے خوش آئند ہے جہاں انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے۔لیکن شومئی قسمت بلوچستان جہاں انٹرنیٹ ورک کجا بجلی اور پانی عنقاء ہے یہاں کے طلباء کیلئے آن لائن کلاسز لینا بدرجہ محال ہے۔ اسی ایشو کو لے کر بلوچستان کے طلباء سراپا احتجاج ہوئے اور یہ جائز مطالبہ کیا کہ پہلے انٹر نیٹ کا بندوست کیا جائے پھر آن لائن کلاسز کا اجراء کیا جائے۔ طلباء اپنے اس مطالبہ میں حق بجانب ہیں کہ ایک پسماندہ صوبہ جہاں کے باسی بجلی، پانی اور دوسرے بنیادی ضروریات زندگی کیلئے ترس رہے ہوں۔
ان سے اس طرح کا مطالبہ کرنا یقیناً طرفہ تماشا ہے۔ لیکن ستم بالائے ستم یہ ان طلباء کو محافظین قوم کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور پولیس نے ان طلباء و طالبات پر لاٹھی چارج کیا اور ان کو سلاخوں کے پیچھے پابند سلاسل کیا،یہ ایک نہایت شرمناک واقعہ ہے۔ مسلمان اور بلوچ بچیوں کو سرعام سڑکوں پر گھسٹینا اور اس طرح بے عزت کرنا نہ صرف بلوچی روایات بلکہ اسلامی تعلیمات اور آئین پاکستان کے بھی منافی ہے۔ لہذا حکومت بلوچستان سے التماس ہے کہ ان طلباء و طالبات کے جائز مطالبات کو فی الفور تسلیم کیا جائے اور ان تمام ممکنہ صورتوں کو زیر بحث لایا جائے جن پر عمل کرکے طلباء کی سہولت کے ساتھ تعلیمی نقصان کی تلافی ممکن ہو سکے۔
Email address.am4151640@gmail.com