|

وقتِ اشاعت :   June 30 – 2020

کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ صوبے کے سائل وسائل کا تحفظ تقریر و شور شرابے سے نہیں کیاجاسکتا ہے بجٹ عوام دوست ہے یا نہیں اس کا فیصلہ عوام پر چھوڑ دیاجائے،،کوئٹہ ماسٹر پلان پر ماضی کی حکومتوں میں ایک انچ بھی کام نہیں ہوا تھا اس پر اب نہ صرف کام تکمیل کے قریب ہے۔ لیویز کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے ہرممکن اقدامات اٹھا ر ہے ہیں، کم خرچ ہا?سنگ اسکیم بنارہے ہیں۔

محکموں کی فائلوں اور سمری تک رسائی کیلئے ٹریکنک کا نظام وضح کیا گیا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو بلوچستان اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعلیٰ نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے شہداء کے اہل خانہ سے ہمدردی کااظہار کیا،انہوں نے کورونا وائرس سے ہونے والی اموات پرافسوس کااظہار کیا، وزیراعلی نے بجٹ سازی میں معاونت کرنے پر اتحادی جماعتوں،متعلقہ محکموں، پرنٹ والیکٹرانک میڈیا کاشکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ گزشتہ بجٹ کی نسبت رواں مالی سال کے بجٹ اجلاس کے دوران ایوان میں بہترین ماحول دیکھنے کو ملا اپوزیشن نے بھی بڑے پن کامظاہرہ کیا۔

جس پر ان کامشکور ہوں ہم بہتر انداز میں بجٹ اجلاس کو اختتام کی طرف لے گئے۔ انہوں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اس سال کو ہمارے لئے عافیت،پرامن اور بہتری کا بنائے۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے ہر پوائنٹ نوٹ کیا ہے لیکن وہ اسمبلی میں موجود نہیں اور بائیکاٹ کرگئے ہیں، اگر وہ یہاں موجود ہوتے تو ان پر بات کرتا۔جو خود کو عقل کل اور ہمیں کم عقل سمجھتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ دلائل سے بات کریں اور دلائل سے ہماری کوتاہیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی کرکے بہتری کی تجاویز دیں جہاں ہماری کمزوری اور کوتاہی ہوگی ہم فراخ دلی سے ان کی بہتری کیلئے کام کرینگے۔

انہوں نے کہاکہ حکومت اپنی کارکردگی کاموازنہ اگر اپنی ہی سابق کارکردگی سے کرے تو بہت سے چیزیں بہتر ہوسکتی ہیں 2018ء کے انتخابات کے بعد حکومت تشکیل دی تو بہت سے مسائل ومشکلات کاسامنا تھا جن پر قابو پانے کیلئے ہم نے گورننس،مانیٹرنگ،احتساب اور قوانین میں بہتری لانے پر توجہ دی،بلوچستان حکومت نے 2008 سے 2018ء کے درمیان کی حکومتوں کی نسبت سب سے زیادہ 102 کابینہ اجلاس منعقد کیے جن میں 390 ایجنڈے زیر بحث آئے یہ بھی ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہیں ان میں بلوچستان کے مفادات کو مدنظر رکھ کر فیصلے کئے گئے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے ترقیاتی عمل کو تیز کرنے کیلئے ایک سال میں 70ارب میں 65ارب روپے خرچ کئے ہیں حالانکہ ماضی میں مالی سال کے آخری ماہ میں یہ رقوم خرچ کی جاتی تھی جبکہ موجودہ حکومت نے فنڈز کااجراء گزشتہ سال اگست سے شروع کیا تھا ا?ئندہ مالی سال کیلئے فنڈز کااجراء جولائی سے ہوگا،موجودہ دور حکومت میں 121ایسے منصوبے تکمیل تک پہنچائے گئے جو 2002،2003ء و دیگر سالوں میں شروع ہوئے تھے۔انہوں نے کہا کہ اس سال کے آغاز پربلوچستان میں ریکارڈ برف باری ہوئی اور اس کے بعد کورونا آیا۔

جس کی وجہ سے ترقیاتی کاموں کیلئے وقت کم ملا لیکن اس کے باوجود ترقیاتی منصوبوں کیلئے جامع منصوبہ پروگرام بنایا۔حکومت نے محکموں کی فائلوں اور سمری تک رسائی کیلئے ٹریکنگ کانظام وضع کیاہے تاکہ فائل ورک اور سمری کا عمل سست روی کا شکار نہ ہو اور محکموں کی کارکردگی بھی بہتر ہو،ضلعی سطح پر محکموں کی کارکردگی کی بہتری کیلئے کمشنر اور متعلقہ محکموں کے افسران کو بہتر سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ساحل وسائل کے تحفظ کیلئے حکومت کی جانب سے سوشل پروٹیکشن اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، تاکہ کوئی بھی غیر ملکی شخص یا کمپنی بلوچستان میں ایک انچ زمین کی بھی خریداری نہیں کرسکتا اپنے ساحل وسائل کا تحفظ تقریر و شور شرابے سے نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی کسی کو ڈنڈے اٹھا کر آنے سے روک سکتے ہیں ساحل وسائل کا تحفظ صرف قانون سازی سے ہوسکتا ہے۔

معدنیات کے حوالے سے منرل پالیسی 2019ء بھی تشکیل دی گئی ہے جس سے ہماری معدنیات اور زمینیں محفوظ ہوں گی،حکومت معدنیات کے شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے کام کررہی ہے ماضی میں اگر ریکوڈک سے متعلق بروقت اقدامات اٹھائے جاتے تو آج صوبے کی ریونیو میں بہتری آتی مگر اس وقت ثمر مبارک مند کو ڈھائی ارب روپے دیکر 4 ایکسیلیٹر، ایک لوڈر اور ٹریکٹر لیکر ریکوڈک پر کام شروع کیا گیا موجودہ حکومت نے ریکوڈک سے متعلق واضح پالیسی وضع کی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے اربن سروسز کی بہتری کیلئے واضح پالیسی تشکیل دی ہے۔

اور اس کو جامع انداز میں آگے بڑھایا جارہا ہے ہماری حکومت نے گوادر ماسٹر پلان منظور کرایا جس پر ماضی میں صرف باتیں کی جاتی تھیں کوئٹہ ماسٹر پلان جس پر ماضی کی حکومتوں میں ایک انچ بھی کام نہیں ہوا تھا اس پر نہ صرف کام تکمیل کے قریب ہے بلکہ حکومت نے ماسٹر پلان کے منصوبے کو وسعت دیتے ہوئے 30 اضلاع تک پھیلا دیا ہے ساحلی علاقوں کی ترقی کیلئے کوسٹل ماسٹر پلان تشکیل دیا گیا ہے اور کوسٹل ایریاز کی ترقی کیلئے خطیر رقم مختص کی گئی ہے جس سے ساحلی علاقوں میں رہائش پذیر افراد کو سہولیات میسر آنے کے ساتھ وہاں آنے والے افراد کو بہتر ماحول میسر ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ بجٹ میں صحت کیلئے مختص فنڈز میں 40 فیصد اضافہ کیا گیا ہے ایگریکلچر، صحت اور دیگر شعبوں کے فنڈز میں بھی اضافہ کیا گیا ہے، کولڈ اسٹوریج کے علاوہ اسکوائش اکیڈمی کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، بلوچستان حکومت تمام اضلاع میں اسپتال بنانے جارہی ہے 8 ارب روپے صرف پوسٹ کووڈ 19 کیلئے رکھے گئے ہیں، صوبے کے مختلف اضلاع میں لیبارٹریز کا قیام،اسپتالوں میں سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جارہا ہے۔

سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں صحت کی سہولیات سرکاری کے سواتھ نجی سطح پر بھی لوگوں کو فراہم کی جاتی ہیں تاہم بلوچستان میں یہ تمام ذمہ داریاں صوبائی حکومت کی ہے،انہوں نے کہاکہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار نیشنل ہائی ویز پر ایمرجنسی سینٹرز قائم کئے گئے ہیں مذکورہ سینٹرز میں نہ صرف ٹریفک حادثات کے زخمیوں کو فوری طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں بلکہ کورونا میں بھی معاونت فراہم کررہی ہیں۔

بلوچستان انڈوومنٹ فنڈ کے تحت کینسر اور دیگر امراض میں مبتلاافراد کے علاج ومعالجے کیلئے 9ارب سے زائد رقم فراہم کی گئی ہے جس کے تحت اب تک 5سو کے قریب لوگوں نے ملک کے مختلف ہسپتالوں میں اپنا علاج کراکر صحت یاب ہوچکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے جامعات کیلئے مختص رقم میں ڈھائی ارب روپے تک اضافہ کیا ہے صوبے میں تمام انٹر گرلز کالجز کو ڈگری کا درجہ دیا جائے گا اس کے بعد تمام انٹر بوائز کالجز کو بھی ڈگری کا درجہ دیا جائے گا۔ حکومت لیویز کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے ہرممکن اقدامات اٹھا رہی ہے لیویز میں کویئک رسپانس فورس،بم ڈسپوزل اسکواڈ، انٹیلی جنس سسٹم کی تشکیل موجودہ حکومت میں ہوئی۔

لیویز کو تمام جدید آلات اور سہولیات سے آراستہ کیا جائے گا جبکہ اپوزیشن نے لیویز کے فنڈز سے متعلق مطالبات زر میں بھی تخفیف زر کی تحریک پیش کی۔حکومت لائیو اسٹاک اور ایگری کلچر کے شعبوں پر خصوصی توجہ دے رہی ہے جس سے نہ صرف روزگار کے مواقع میسر آئیں گے بلکہ صوبے کی معیشت میں بھی استحکام آئے گا۔ صوبائی حکومت نے پہلی بار لائیواسٹاک ایکسپو کرایا۔

انہوں نے کہا کہ برف باری اور کورونا وائرس کی وباء نہ آتی تو ہم اس طرح کے مزید ایکسپو کراچکے ہوتے۔ حکومت گرین ٹریکٹرپروگرام کامنصوبہ لائی تاہم وہ کورونا کی وجہ سے تعطل کاشکار ہوا،کمیونیکیشن کی بہتری کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں، خضدار، لورالائی اور دالبندین میں ماربل سٹی کا پلان عمل میں لایا جارہا ہے اور مختلف اضلاع میں اکنامک زونز بنائے جارہے ہیں۔

مختلف علاقوں میں شاہراہوں کی تعمیروترقی سے مواصلاتی نظام میں بہتری سمیت ان اضلاع میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ جس ملک کی آدھی سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہو وہاں اراکین اسمبلی کی جانب سے یہ کہنا کہ انہیں سپورٹس کمپلیکس کی ضرورت نہیں باعث تعجب ہے انہوں نے کہاکہ صوبے کے 33اضلاع میں سپورٹس کمپلیکس تعمیر کئے جارہے ہیں 71فٹ سال بنائے جارہے ہیں صوبے کی ہر ٹاؤن کمیٹی میں فٹ سال کے میدان بنائے جائیں گے جو ایک بہت بڑی پیشرفت ہیانہوں نے کہا کہ حکومت نے سوشو اکنامک ڈویلپمنٹ منصوبے کی منظوری دی ہے۔

جس کے تحت بے روزگار نوجوانوں کو بلا سود قرضے دئیے جائیں گے حکومت نے مائیکرو فنانس پروگرام،ہیلتھ انشورنس پروگرام کے منصوبوں کی بھی منظوری دی ہے موجودہ حکومت نے 6ہزار سے زائداسامیاں متعلقہ اداروں کو بھجوائی ہیں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت نے صوبے میں خصوصی افراد کی سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ میں بھی اضافہ کیا ہے اس سلسلے میں اسپیشل افراد کے کوٹہ پر تعیناتیاں بھی کی گئی ہیں۔

بلوچستان حکومت صوبے کے تمام اضلاع میں سرکاری ملازمین کیلئے جی او آر کالونی کی طرز پر کالونیاں بنانے کا ارادہ رکھتی ہے،46کمیونٹی ویلفیئرز اکیڈمی بنارہے ہیں،کم خرچ ہا?سنگ اسکیم بنارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ صوبے میں نئے اضلاع کے قیام کی تجویز بھی زیر غور ہے بلوچستان حکومت نے سرہ خولہ ڈیم بنانے کیلئے رقم مختص کی ہے حکومت 2 سے ڈھائی سو مختلف منصوبے جو زیر التواء تھے پر کام کررہی ہے۔

انہوں نے اگلے سال 45 ارب کا ریونیو حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے بلوچستان میں سب سے زیادہ ریونیو کوئٹہ سے مل رہا ہے انہوں نے کہاکہ جن اضلاع سے ریونیو حاصل ہوتا ہے وہاں کی بہتری کیلئے اقدامات کی جارہے ہیں اور ان کے لئے منصوبے رکھے گئے ہیں ڈسزاسٹرمینجمنٹ ویلجز بنا رہے ہیں تاکہ ہر ضلع میں سامان میسر ہوخواتین کیلئے انٹرشپ پروگرام کااجراء کیاجارہاہے حکومت صوبے میں ہنرمند پروگرام شروع کررہی ہے 25ووکیشنل ثقافتی سینٹر تعمیر کی جارہی ہیں تفتان میں پہلی بار ایل پی جی ٹرمینل تعمیر کیاگیاہے انہوں نے کہا کہ اگر اپوزیشن بجٹ کی کتابیں پڑھ لیتی تو پتہ چلتا کہ دیگر اسکیموں میں کیا کچھ رکھاگیاہے۔