بلوچستان اسمبلی کے اراکین کی صوبے میں سیاسی کردار اور سیاست بازی کا تسلسل عرصہ دراز سے جاری ہے صوبے کے 65 اراکین اسمبلی میں ہر سال معمولی تبدیلی کے علاوہ کوئی خاص تبدیلی ان نو انتخابات میں آپ کو کہیں بھی نظر نہیں آئے گی۔موجودہ اسمبلی میں بھی چند نئے چہروں کے علاوہ تمام اراکین ہمیشہ اور مسلسل منتخب ہوتے آ رہے ہیں تاہم ان کی سیاسی اکھاڑے تبدیل ہونے کے باوجود وہ ہمیشہ ہی سیاسی پہلوان بنتے رہتے ہیں اور ہر دور میں ہی وزارت اور مشیر کے عہدے پر براجمان رہتے رہے ہیں۔
موجودہ اسمبلی میں سوائے چند اراکین کے باقی سب وزیر مشیر رہ کر ہی بلوچستان کی ان کے بقول بہترین خدمت کی ہوئی ہے تاہم وہ خدمات اگر عوام کو نظر نہیں آتے تو ان کا قصور نہیں بلکہ عوام ہی کی آنکھیں کمزور ہو چکی ہیں یا پھر عوام تعصب کی عینک کی بدولت انہیں بلوچستان کی ترقی نظر نہیں آ رہی ہے۔ بلوچستان میں جام خاندان نے چار مرتبہ یعنی موجودہ وزیر اعلیٰ کے دادا جام میر غلام قادر دومرتبہ, جام محمد یوسف ایک مرتبہ اور موجودہ وزیر اعلیٰ جام کمال خان پہلی مرتبہ وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوکر بلوچستان کے عوام کو اپنی صلاحیتیوں سے محظوظ کر رہے
ہیں اور عوام یقینا ترقیاتی تقاریر اور وعدوں سے بہتر انداز میں بھی لطف اندوز ہو رہے ہونگے اور اس امید پر کہ موجودہ جام خاندان کا صوفی منش، صوم وصلوات کا پابند وزیراعلیٰ جام کمال خان صوبے کی ترقی اور عوام کے فلاح وبہبود کے ترقی کیلئے ریکارڈ منصوبے بنا کر بلوچستان میں باکمال ترقی کی بنیاد رکھیں گے اور حسب سابق ترقیاتی نعرے اور وعدوں کے بجائے صوبے کی پسماندگی کے خاتمے کیلئے اپنا کمال حقیقت میں عوام کو ضرور دکھائیں گے اور یہ عوام کو ضرور باور کرائیں گے کہ بلوچستان کی تباہی وپسماندگی سابق حکمرانوں کی نااہلی اور کرپشن ہی کی بدولت ہوئی ہے۔
جام کمال خان خود ہی ہمیشہ سے ہی اپنے آبائی حلقے سے منتخب ہوتے آ رہے ہیں وہ سابق نواز شریف کے دور میں پانچ سال تک وفاقی وزیر مملکت اور مشرف دور میں ضلع ناظم بھی رہ چکے ہیں اگر آپ لسبیلہ کا حال دیکھیں تو پسماندگی تباہ حالی اور پتھر کے دور کا ہی منظر اب تک پیش کر رہا ہوگا بلکہ کر رہا ہے اس کا ذمہ دار بھی اگر جام کمال خان سابق حکمرانوں کو قرار دیتے ہیں تو پھر واقعی بلوچستان کے عوام سادگی کا شکار ہیں اور ان کی یاداشت کمزور ہے۔ جبکہ اسی طرح جعفرآباد سے جمالی خاندان نے بھی بلوچستان پر تین بار حکمرانی یا وزارت اعلیٰ،ایک بار وزرات عظمیٰ کے اہم اور کلیدی عہدہ اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ اسپیکر بلوچستان اسمبلی جیسے اہم عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود جعفرآباد کی پسماندگی اور عدم ترقی جعفرآباد کے عوام کی قسمت اور مقدر بن چکی ہے۔
جعفرآباد سے میر ظفراللہ خان جمالی بیک وقت وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں،تاج محمد جمالی وزرات اعلیٰ جبکہ جان محمد خان جمالی وزرات اعلیٰ اور ڈپٹی چئیرمین سینٹ اور اسپیکر بلوچستان اسمبلی رہ چکے ہیں یہاں سے جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں ان میں جمالی خاندان ہی منتخب ہوتے رہے ہیں جعفرآباد کی پسماندگی اور عوام کی اس جدید ترقیاتی دور میں بھی ترقی کی سہولیات سے محروم ہیں دیہی علاقوں کے بجائے شہری علاقے بھی تباہی کا منظر پیش کر رہے ہیں اور یہ ہمیشہ حکمران اتحاد ہی میں رہنے کے باوجود اگر اس پسماندگی اور عدم ترقی کا شکار سابق حکمرانوں کو ہی گردانتے ہوں تو پھر عوام کا اللہ ہی حافظ ہے۔
عوامی ناراضگی اور ووٹ کی اہمیت اگر ان کیلئے ہوتی تو پھر عوام کبھی پسماندگی کا شکار نہ رہے ہوتے اور شاید انہیں یہ یقین ہے کہ کامیابی ہماری مرہون منت ہے تو شاید اسی وجہ سے عوامی فلاح و بہبود کی ترقی ان کی اولین ترجیحات میں شامل نہیں یا پھر عوام اتنے مجبور اور لاچار ہیں کہ ان سے کبھی بھی پسماندگی اور عدم ترقی کی شکایات یا لب کشائی کرنے کی جرات نہیں کرتے جس کے باعث بلوچستان کے سیاسی لیڈران اپنے آپ کو عوامی عدالت میں جوابدہ نہیں سمجھتے اور ساتھ ہی اس طرح کا مضبوط امیدوار بھی شاید ان کا مدمقابل بھی نہیں ہوتا۔
اسی طرح خضدار ضلع والے بھی شاید خوش قسمت ہیں جس کے نمائندوں کو بھی تین مرتبہ وزارت اعلیٰ کا منصب ملا جہاں سردار عطاء اللہ مینگل، ان کے فرزند سردار اختر مینگل اور نواب ثناء اللہ زہری بھی وزارت اعلیٰ کے عہدے پر براجمان رہ چکے ہیں۔ سردار عطاء اللہ مینگل اور اختر جان مینگل وڈھ کے حلقے سے ہی کامیاب ہوکر وزرات اعلیٰ کے منصب جلیلہ پر فائز ہو چکے تھے جبکہ نواب ثناء اللہ زہری جوکہ زہری کرخ اور مولہ کے انتخابی حلقے سے کامیاب ہونے کے بعد وزرات اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے تاہم نواب ثناء اللہ زہری کے دور میں فنڈز کی فراوانی کے باعث زہری، خضدار اور بلوچستان میں ریکارڈ ترقیاتی منصوبے پایہ تکمیل ہوئے۔
قوم پرست رہنماء ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے دور وزارت اعلیٰ میں بھی صوبے میں ترقی کا تیز عمل شروع ہوگیا تھا جہاں امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب تھی امن و امان کی بہتری اور میرٹ کے حوالے سے اصلاحات اور صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی جیسے اقدامات سے صوبے میں بلاشبہ بہترین طرز حکمرانی کا آغاز ہوا۔ تربت میں یونیورسٹیز جدید و ماڈل سٹی تربت کی ری پلاننگ و دیگر اہمیت کے حامل منصوبے بنائے گئے اور ان منصوبوں سے تربت اور مکران میں ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا بلوچستان میں سوائے دو شخصیات جام محمد یوسف اور نواب اسلم رئیسانی جنہوں نے پانچ سال کے عرصے تک وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز رہے
جبکہ باقی تمام کو کم عرصہ میں ہی تبدیلی کا سامنا کرنا پڑا تھا صوبے کے انتہائی پسماندہ علاقوں جھل مگسی آواران ڈیرہ بگٹی سے بھی وہاں کے نمائندے وزرات اعلیٰ کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں جھل مگسی سے نواب ذوالفقار مگسی دو مرتبہ وزیراعلیٰ ایک مرتبہ گورنر بھی رہ چکے ہیں آواران سے میر عبدالقدوس بزنجو ڈیرہ بگٹی سے نواب اکبر خان بگٹی سبی سے محمد خان باروزئی بھی وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں آپ ان علاقوں کی عدم ترقی پسماندگی اور عوام کی حالت زار سے ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کے نمائندوں نے ہی علاقے کی ترقی پر کبھی بھی توجہ نہیں دی۔
اگر ان کے نمائندے چاہتے تو ان علاقوں کی پسماندگی ان کے وزارت اعلیٰ ہی کے دور میں ختم ہو سکتی تھی اب ان علاقوں کے نمائندے اپنے اپنے حلقوں کی پسماندگی کا ذمہ دار کس کو قرار دیں گے اور علاقے کی تباہ حالی کس کی وجہ سے ہوئی ہے تاہم مجھے یقین ہے کہ یہ نمائندے بھی علاقے اور صوبے کی پسماندگی کا ذمہ دار سابق حکمرانوں کو ہی گردانتے ہونگے، انہیں تو اب حکومت میں آئے ہوئے کچھ عرصہ یعنی دو سال کا مختصر عرصہ ہوا ہے تاہم یہی نمائندے علاقے کی ترقی کا بہتر وژن اور جدید سہولیات سے آراستہ کرنے کے عوام کو بہترین نعرے اور وعدوں کی یقین دہانی کرا رہے ہونگے۔
بلوچستان کے عوام کی پسماندگی کا ذمہ دار قوم پرست پارٹیاں پنجاب کو ہی قرار دیتے ہیں؟ کیا بلوچستان پر حکمرانی پنجاب یا دیگر صوبے کے لیڈران کر رہے ہیں کیا کوئی ایک بھی وزیر اعلیٰ بلوچستان سے باہر کا منتخب ہوا ہے اگر سب صوبے سے ہی کے منتخب نمائندے ہیں اور عوام و صوبے کی ترقی پسماندگی کا خاتمہ ان سیاسی شخصیات کی ترجیحات ہی نہ ہو تو اس میں قصوار وار کون ہے۔ کیا بلوچستان کے عوام اتنے سادے ہیں کہ ان کے اس طرح کے نعروں پر یقین رکھتے ہیں بقول شاعر اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پر بجلیاں –
بلوچستان کی پسماندگی محرومی اور عدم ترقی کا ذمہ دار صوبے کے ہی منتخب نمائندے ہیں ان کی ترجیحات شاید عوامی فلاح و بہبود نہیں بلکہ اپنی ذاتی بنک بیلنس میں اضافہ، اپنی انفرادی ترقی ہے اسی وجہ سے ہی یہی نمائندے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کے ثمرات سے مستفید ہو رہے ہیں اور ان کے اثاثوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن عوام قرون اولیٰ اور پتھر کے زمانے میں ہی رہ رہے ہیں – کیا بلوچستان کے نمائندے احتساب سے مستثنیٰ ہیں؟ کیا احتساب کے دائر اختیار میں بلوچستان کے منتخب نمائندے نہیں آتے؟ کیا ایف بی آر سیاسی لیڈران کی اثاثوں کے بارے میں معلومات نہیں رکھتی؟
کیا ملکی ادارے اتنے لا علم ہیں کہ انہیں ان اراکین اسمبلی کا کرپشن نظر نہیں آ رہا اگر صوبے میں کرپشن نہیں تو ترقیاتی منصوبے کدھر بن رہے ہیں زمین پر ان منصوبوں کی حقیقت سے عوام کیوں بہرہ مند نہیں ہو رہی۔ اگر بلوچستان کے اراکین اسمبلی فرشتے ہیں تو پھر بلوچستان ستر سالوں سے اب تک ترقی کے ثمرات سے کیوں بہرہ مند نہیں ہو سکا ہے- کیوں بلوچستان کے عوام جدید سہولیات کیلئے اب بھی ترس رہے ہیں جہاں صوبے کے ستر فیصد عوام کو صاف پینے کا پانی فراہم نہ ہو، جہاں صوبے میں صحت عامہ کی سہولیات اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہوں، جہاں ہسپتالوں میں ادویات تک میسر نہ ہوں جہاں کے اسپتالوں میں موت رقص کرتا ہو
جہاں شہری اور میونسپل ایریا کی آبادی بھی ترقیاتی سہولیات کیلئے ترستے ہوں، جہاں بہتر اور ماڈل شہر عوام کے خواب ہی ہوں -جہاں بجلی کیلئے لوگ اب تک امیدیں لگائے بیٹھے ہوں، جہاں کا تعلیمی نظام گھوسٹ ہو، جہاں تعلیم برائے نام ہو لیکن روز تعلیمی بہتری کے نام پر تجربات کرکے رہی سہی تعلیمی نظام کا جنازہ نکالا جاتا ہو، جہاں صوبے بھر میں سوائے چند شہروں کے انٹرنیٹ نہ ہواس کے باوجود آن لائن تعلیم کا راگ الاپا جا رہا ہو، پورے صوبے میں روڈ انفراسٹرکچر برائے نام ہو،جہاں زراعت اللہ کے آسرے پر ہو، جہاں صوبے کے نہری پانی کے حصے کا پانی پورا نہ ملتا ہو جہاں پانی کی عدم فراہمی کے باعث ٹیل کے افراد نان شبینہ کے محتاج ہوں
جہاں کے اراکین اسمبلی صوبے کے حقوق اور مسائل پر بات کرنے کے بجائے ایوان کے ٹھنڈے ماحول میں صرف نیند کرتے ہوں وہاں پھر کون صوبے اور عوام کے حقوق کی بات کریگا۔ ہمارے انہی منتخب نمائندوں کی نااہلی کے باعث صوبے میں وفاقی منصوبوں سے 50 کے قریب اہم منصوبے نکال دئیے گئے جہاں این ایف سی ایوارڈ میں بھی کٹوتی کی جاتی ہو لیکن اس کے باوجود وفاق سے بات کرنا بے ادبی اور گستاخی تصور کی جاتی ہو اور پھر ان سب کا ذمہ دار اپنوں کے بجائے دوسروں کو ہی قرار دینا کیا یہ منافقت نہیں –
کیا یہ عوام کے حق رائے دہی سے غداری نہیں یا صرف عوامی فلاح و بہبود کے بجائے اپنی ذاتی ترقی مقصود ہو یقینا بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں کے عوام کی بد حالی عدم ترقی پسماندگی احساس محرومیوں کا ذمہ دار بلوچستان کے اراکین قومی اسمبلی سینٹ اور صوبائی اسمبلی ہیں کبھی بھی وفاقی ناانصافیوں پر قرارداد مذمت تک پیش نہیں کی گئی، کبھی وفاق سے صوبے کے حقوق اور رائلٹی کے حوالے سے بات نہیں ہوتی، اب بھی سینٹ کا چیئرمین بلوچستان سے ہی ہے- کیا کبھی اس نے صوبے کے عدم ترقی پر رولنگ دی ہے کیا انہوں سے وزیر اعظم کو صوبے کی پسماندگی کے بارے میں اور وفاقی منصوبوں میں اولیت نہ دینے پر کبھی بات کرنے کی جرات کی ہے
اگر وہ عوامی نمائندے ہوتے تو پھر یقینا صوبے اور عوام کی ترقی کے حوالے سے بات کرتے، ان کی ترجیحات عوامی ترقی نہیں شاید کچھ اور ہے اسی لئے وہ عوام کی بجائے کسی اور کے حقوق کی نگہبان اور ترجمان ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ بلوچستان کے عوام ان بہروپیوں اور موسمی پرندوں نما سیاستدانوں کا کڑا احتساب کریں اور انتخابات میں انہیں یکسر مسترد کرکے ایسے عوامی نمائندوں کا انتخاب کریں جو بلوچستان کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے عملی اقدامات کر سکتے ہوں۔ایسے اراکین کبھی بھی عوام سے مخلص نہیں ہوتے
جو ہرسال پارٹیاں تبدیل کرکے وزارت کے مزے لیتے ہوں اور عوام پسماندگی کا رونا روتے ہوں اب بلوچستان کی تقدیر بدلنے کا وقت آگیا ہے جب تک عوام باشعور نہیں ہونگے اسی طرح ستر سالوں سے جو پسماندگی محرومی عدم ترقی کا تسلسل جاری ہے وہ تسلسل جاری رہے گا، بلوچستان کے نوجوان صوبے میں سیاسی انقلاب پیدا کرنے کیلئے عوام کو شعور دیں عوام کے باشعور ہونے سے ہی بلوچستان کی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔اس طرح کی تبدیلی کیلئے مشکلات اور تکالیف ضرور ہو سکتے ہیں تاہم یہ ناممکن نہیں۔