وفاقی حکومت نے اس سال کا بجٹ 12 جون کو پارلیمنٹ میں پیش کیا۔ ہمارا ہر بجٹ غریب دشمن بجٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔جس میں غریب اور لوئر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ ہر بجٹ کے بعد مہنگائی کا بڑا طوفان واقع ہوتا ہے لیکن موجودہ بجٹ نے تمام سابقہ بجٹوں کا ریکارڈ تھوڑ دیا۔بجٹ سے پہلے آئی ایم ایف نے حکومت کو بجٹ کے بارے میں اپنی تجاویز دی تھیں جس پر حکومت نے من وعن عمل کیا۔موجودہ بجٹ ہر لحاظ سے عوام کے لیے بہت مایوس کن رہا۔ اس میں تعلیم اور صحت کے لیے کوئی قابل ذکر رقم مختص نہیں کی گئی۔ ہر حکومت تعلیم کی ترقی کے لیے بڑے بڑے دعوے کر تی ہے کہ ملک کی ترقی تعلیم ہی میں ہے لیکن حقیقت میں اس پر عمل نہیں کرتے۔ تعلیم کو کوئی بھی حکومت اہمیت نہیں دیتی اس وجہ سے اس ملک میں جہالت،غربت اور افلاس پایا جاتا ہے۔
بنگلہ دیش پاکستان سے 1971 میں الگ ہوا اس وقت وہ بہت کمزور ملک تھا لیکن ان کی اچھی پالیساں بنانے کی وجہ سے آج ان کی معیشت پاکستان سے بہتر ہے۔ بنگلہ دیش نے تمام بجٹ کے پندرہ فیصد حصہ تعلیم کے لیے مختص کیا ہے جو ڈیفنس سے تین گنا زیادہ ہے یعنی تعلیم کے لیے سب سے زیادہ رقم رکھی گئی ہے۔ہماری حکومت نے یونیورسٹیوں کو کہا ہے کہ آپ اپنے آمدن میں اضافہ کرنے کے لیے لوگوں سے چندہ مانگیں اور اس سے اپنا کام چلائیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سرکاری اداروں کو کوئی چندہ دے گا؟ کبھی نہیں۔ تقریباً دو سال سے یونیورسٹیاں مالی مشکلات سے دو چار ہیں۔
بعض یونیورسٹیوں کے پاس ملازمین کی تنخواہیں نہیں ہوتیں تو اس وجہ سے ہمارے تعلیم پر بہت منفی اثر پڑ رہا ہے کیونکہ جب تک کسی ادارے کے مالی وسائل برابر نہ ہو تو ں وہ کبھی ترقی نہیں کریگا۔پورے سال سرکاری ملازمین بجٹ کا انتظار کر تے ہیں کہ بجٹ میں تنخواہوں میں اضافہ ہو جائے گا لیکن موجودہ حکومت کا یہ دوسرا بجٹ ہے جو پیش کیا،دونوں میں ملازمین کو مایوس کیا۔ڈالر ایک سو ساٹھ پر چلا گیا ہے اس کی وجہ سے ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے لیکن دوسری طرف حکومت نے بجٹ میں ملازمین کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا جس کی وجہ سے ملازمین بہت سی پریشانیوں میں مبتلا ہو گئے ہیں۔
وہ سوشل میڈیا، اخبارات اور دیگر ذرائع سے اپنے مطالبات حکومت کو پیش کر رہے ہیں لیکن ٹس سے مس نہیں ہورہی۔ملازمین کی بنیادی و گھریلو ضروریات تنخواہ سے پوری نہیں ہوتیں بنیادی،ضروریات میں گھر تعمیر کرنا، بچوں کی تعلیم،بچوں کی شادیاں، کھانے کا انتظام اور کپڑے خریدنا شامل ہیں۔ اگر ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کیا جائے تو وہ کیسے پورے ہونگے۔جو لوگ بجٹ تیار کرتے ہیں چاہے حکومتی وزراء اوربیوروکریٹس وہ مالدار ترین افراد ہیں ان کوغریب افراد کے بارے میں کوئی احساس نہیں ہوتا۔اگر ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔
تو وہ اپنی ضروریات دوسرے جائز وناجائز طریقوں سے پورا کرینگے جو وہ ان کی ڈیوٹی اور ایمان کے لیے درست نہ ہونگے۔اس ملک میں تمام محکموں کے ملازمین جو ایک ہی سکیل پر کام کرنے والے ہیں اس میں ایک دوسرے کی تنخواہوں، الاؤنسوں اور مراعات میں بہت فرق ہے بعض محکموں کے گریڈ 7 کے ملازمین دوسرے محکموں کے گریڈ 17 کے آفیسرز کی تنخواہوں کے برابر ہوتے ہیں۔ جو بہت بڑا ظلم ہے بعض آفیسر کا تنخواہ ایک لاکھ سے کم بلکہ اس گریڈ کے دوسرے محکمے کا آفیسر کا الاوئنس اس کی تنخواہ سے زیادہ ہوتا ہے۔ ایک کی تنخواہ ہزاروں میں دوسرے کی تنخواہ لاکھوں میں ہوتا ہے یہ طبقاتی نظام ہے حکومت کو چاہئیے کہ تمام محکموں کے ملازمین میں یہ فرق ختم کیا جائے اور ملازمین میں یہ نفرت اور استحصال ختم کیا جائے۔
موجودہ حکومت جب اقتدار میں نہیں تھی تو وہ بہت بلند وبالا نعرے لگاتی رہی۔ انہوں نے نیا پاکستان کا نعرہ لگا یا جس کی وجہ سے ان کو حکومت مل گیا لیکن اس حکومت کے دو سال پورے ہو گئے عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔موجوہ حکومت کے دو سال میں بڑے بڑے بحران پیدا ہوگئے ہیں۔کبھی ٹماٹرکا بحران، کبھی آٹا، کبھی چینی اور حال ہی میں پٹرول کا بحران پیدا ہوا۔ ہر چیز مہنگی ہوئی دوسری طرف ٹڈی دل اور کورونا وائرس کی وجہ سے معیشت تباہی کی طرف گامزن ہو چکی ہے۔بجٹ کے دو ہفتے بعد پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں ایک دم پچیس اور بیس روپے اضافہ کیا گیا حالانکہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں تیل کی قیمت وہی پرانی ہے۔
حکومت نے مخصوص طبقہ کو فائدہ پہنچانے کے لیے یہ سب کچھ کیا۔ اور دوسری طرف عوام پر ان کی مہنگائی کا بوجھ ڈال دیا تیل کی وجہ سے ہر چیز مہنگی ہوتی ہے۔ اس سے پہلے سارے ملک میں پٹرول غائب ہو گیا جب مہنگا کر دیا تو مارکیٹ میں کوئی کمی نہیں رہی تو معلوم ہوا کہ موجودہ حکومت سب سے کمزور حکومت ہے، وہ بڑے سرمایہ داروں کو کچھ نہیں کہہ سکتی۔ حکومت برائے نام کا ہے۔لیکن میں حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ خدارا پاکستان کے عوام پر رحم کریں۔اور سینٹ میں بجٹ پر دوبارہ نظر ثانی کرکے عوام دوست بجٹ بنائے۔ تاکہ عوام آپ کے لیے دعا گو رہے۔