|

وقتِ اشاعت :   July 2 – 2020

لیاری کو ایک بار پھر جرائم پیشہ افراد کے حوالے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیاری کی سیاسی اور سماجی کلچر کو بندوق کے ذریعے کنٹرول کرنے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ علاقے میں جرائم پشہ افراد نے انٹری دے دی اور ہر گلی میں اپنی سرگرمیاں شروع کردیں۔ منشیات کی فروخت سرعام جاری ہے۔ کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں نے آنکھیں پھیر لیں۔آج کل لوگ لیاری کو جرائم، منشیات اور گینگ وار کی علامت سمجھتے ہیں لیکن یہ اصل لیاری نہیں ہے۔ بدقسمتی سے حکومتی اداروں کے ساتھ ملکر ہمارے میڈیا نے لیاری میں موجود ٹیلنٹ کو نظرانداز کیا۔

اور جان بوجھ کر لیاری میں جرائم فروشوں کو سیاسی قیادت دینے کی کوششیں کی گئیں تاکہ دنیا میں لیاری کا امیج خراب ہو۔لیاری میں دادا گیری کا کلچر نئی بات نہیں ہے۔ 1960 سے یہ کلچر روایتی انداز میں چل رہا تھا۔ مگر حال ہی میں اس کلچر میں سیاسی عنصر شامل کیا گیا۔ اس طرح یہ دادا گیری روایتی انداز سے نکل کر آرگنائزڈ کرائم کی شکل میں سامنے آگئی جس کی اصل شکل لیاری گینگ وار ہے۔ اور جرائم کو ایک منصوبہ بندی کے تحت فروغ دیا گیا۔ اوریہ ایک بار پھر ہونے جارہا ہے۔دراصل لیاری کی اصل پہچان سیاسی و فکری شعور، روشن خیالی اور رواداری ہے۔پسماندگی اور مزاحمت کی علامت کراچی کی یہ قدیم بستی بیروزگاروں کی بستی ہے۔۔

ثقافتی ونسلی کثیر رنگی اور رواداری اس کا حسن ہے۔لیاری باکسنگ اور فٹبال کی نرسری ہے، جہاں سے کئی عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی نکلے۔لیاری باکسنگ کا گڑھ ہے اور ماضی میں یہاں سے بے شمار کھلاڑیوں نے بین الاقوامی سطح پر لیاری کا نام روشن کیا۔ لیاری منی برازیل یا لٹل برازیل کے نام سے مشہور ہے اس کا بھی ایک خاص پس منظر ہے۔60 کی دہائی میں لیاری بلوچ قوم پرستوں کا گڑھ تھا۔ ککری گراؤنڈ میں 1962 میں بلوچستان میں ناانصافیوں کے خلاف ایک بڑا اجتماع ہوا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ لیاری کے لوگوں نے بلوچ رہنماؤں خیر بخش مری، میرغوث بخش بزنجو، عطا اللہ مینگل اور بلوچی شاعر گل خان نصیر کو دیکھا اور سنا۔میرغوث بخش بزنجو بھی یہاں رکن اسمبلی بنے۔

اسی دورمیں محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے بلوچ طلبا نے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن بنائی۔لیاری میں جب پیپلز پارٹی نے بلوچ قوم پرستوں کی جگہ لے لی تو اس زمانے میں کراچی کے دیگر علاقوں میں لسانی تنظیمیں سرگرم تھیں۔ ان لسانی تنظیموں کے عسکری ونگز تھے۔ اس طرح کراچی میں سیاسی جماعتوں نے عسکری ونگز کے سہارے سیاست کا آغاز کیا۔ سیاست میں اسلحہ کا آنا۔ جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں میں اسلحہ تھمانا سیاسی کلچر کا حصہ بنایا گیا۔ اور دیکھا دیکھی میں پیپلز پارٹی نے بھی بلوچ لڑکوں کے ہاتھوں میں بندوق تھمادیا۔ اس طرح سیاست بندوق کے تابع ہوگیا۔

بندوق کی نوک پر سیاست کا آغاز کیا گیا جس سے سیاسی کلچر کی موت ہوگئی۔ اس طرح لیاری کو جرائم پیشہ افراد کو گڑھ بنادیا گیا۔ بندوق بردار افراد نے لیاری پر قبضہ کیا۔ اس طرح کے فیصلوں سے پیپلز پارٹی نے سیاسی خودکشی کی کیونکہ جن کے ہاتھوں میں اسلحہ تھمایا گیا وہ غیر سیاسی افراد تھے ان کو یہ علم نہیں تھا کہ ان کے ہاتھوں میں جو اسلحہ ہے اس کو کس مقصد کے لئے استعمال کیا جائے؟ اور کہاں استعمال کیا جائے؟۔ وہ مکمل طورپر غیر سیاسی لوگ تھے۔ جس کی وجہ سے نامعلوم قوتوں نے ان افراد کو آسانی سے اپنے ہاتھوں میں لے لیا جس کے نتیجے میں لیاری پیپلز پارٹی کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ اور گینگ وار کے ہاتھوں چلا گیا۔ حتیٰ کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر گینگ وار کے امیدوار کامیاب ہوگئے۔

تاہم آج بھی لیاری میں بلوچ قوم پرستوں کا اثر و رسوخ ہے۔ حال ہی میں بلوچستان میں بلوچ عورتوں کے قتل عام کے خلاف ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی ریلیاں نکالی گئیں جس میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ ان ریلیوں نے یہ پیغام دیا کہ کراچی کے بلوچوں کا بلوچستان کے عوام کے ساتھ ایک خونی رشتہ ہے۔ اس ریلی نے یہ بھی پیغام دیا کہ بلوچ معاشرے میں ایک مضبوط سیاسی کلچر موجود ہے اور اس کلچر کو غیر مستحکم کرنا ناممکن ہے۔ان ریلیوں نے اداروں کو سوچنے پر مجبور کیا کہ بلوچ معاشرے کو کریمنالائزیڈ کیا جائے تاکہ بلوچستان کی طرح لیاری کی سیاست کو بھی ایک بار پھر بندوق کے ذریعے کنٹرول کیا جائے۔

اس پالیسی کے تحت سینٹرل جیل میں لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کی جان کو خطرہ قرار دے کر انہیں مٹھا رام ہاسٹل منتقل کردیا۔ اور مٹھا رام ہاسٹل کو سب جیل بھی قرار دیا گیا۔ اس نیوز نے عوامی حلقوں میں بے چینی پیدا کردی کہ عزیر بلوچ جیسے ایک طاقتور فرد کی جان کو کیوں خطرہ لاحق ہوسکتا ہے؟ ان کو جیل سے نکال کر کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟۔ وغیرہ وغیرہ۔شاید ریاستی ادارے ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل نہیں کرسکے اور ایک بار پھر جرائم پیشہ افراد کے ذریعے بلوچ معاشرے کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ان کی سیاسی نابالغی ہے کیونکہ بلوچوں کا مسئلہ سیاسی اور آئینی ہے اس سے عسکری طریقے سے نمٹنا ممکن نہیں ہے۔