|

وقتِ اشاعت :   July 4 – 2020

تحریر:محبوب شاہوانی
بلوچستان جو پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا اور رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل سے مالا صوبہ ہے مگر وفاق کی جانب سے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، چھوٹے صوبوں کے ساتھ ناروا سلوک اور ان کے حقوق غصب کرنے کی وجہ سے بلوچستان پسماندگی اور محرومیوں کا شکار ہے۔ بلوچستان کی اکثر آبادی دیہاتوں پر مشتمل ہے جہاں زندگی کی بنیادی سہولیات میسر نہیں حتی ٰکہ لوگ پینے کے صاف پانی سے بھی محروم ہیں جبکہ یہاں کے شہری علاقوں میں بھی سہولتوں کا فقدان ہے۔ بلوچستان کے ایسے علاقے بھی ہیں جہاں لوگوں کے لئے جدید دور کی سہولیات محض خواب ہیں۔ اس جدید دور میں بھی بلوچستان کے دیہی علاقے تو کیا اکثر شہری علاقے بھی انٹر نیٹ کی سہولت سے محروم ہیں، بلوچستان کے لوگوں نے جب بھی اپنے حق کی بات کی تو انھیں غدار اور ملک دشمن قرار دیا گیا تاکہ انکی آواز کو دبایا جاسکے، یہاں کے سیاستدانوں کو تو ہمیشہ غدار کا لقب دیا گیا مگر حال ہی میں جب بلوچستان کے طلباء و طالبات نے ہائرایجوکیشن کی جانب سے آن لائن کلاسز شروع کرنے اور بلوچستان میں انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کے خلاف احتجاج کرکے آن لائن کلاسز کے فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا تو ان کی بات سننے،انکے جائز مطالبات کو ماننے کی بجائے انھیں پولیس کے ذریعے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور گرفتار کیاگیا۔اس دوران طالبات کو پولیس کی جانب سے گرفتار کرکے صوبے کی روایات کی نفی کی گئی اور جمہوریت کے چہرے کو مسخ کیا گیا، بلوچستان کے طلبا و طالبات کا اپنا حق مانگنے کے لئے اسمبلی کے باہر جمع ہونا اور احتجاج ریکارڈ کروانا ہر گز کوئی جرم نہیں تھا۔یہ تمام طلبا و طالبات کا بنیادی، آئینی وجمہوری حق ہے کہ ملک بھر کے دیگر طلبہ کی طرح وہ بھی آن لائن کلاسز میں شریک ہو سکیں مگر افسوس کہ بلوچستان کے طلبہ پر تعلیم کے دروازے بند کرنے کے لئے ایک طرف انھیں انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم رکھا گیا،دوسری جانب آن لائن کلاسز شروع کی گئیں۔ اس صورتحال میں بلوچستان کے طلبہ تعلیم جیسی بنیادی حق سے محروم ہونے لگے، طلبہ اپنے حق کے لئے پرامن طورپر جمہوری و آئینی طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے بلوچستان اسمبلی کی جانب روانہ ہوئے تو انھیں زبردستی روک کر گرفتار کیاگیا،بلوچستان حکومت کو چاہئے تھاکہ وہ طلبہ کو اسمبلی تک آنے دیتی اور شائستگی کے ساتھ انکی بات سنتی، اسی میں جمہوریت کا حسن اور بلوچستان کی روایات ہیں مگر سمجھ نہیں آتا کہ اپنے آپکو بلوچستان کے عوام کا نمائندہ اور انکے حقوق کا پاسبان سمجھنے والی حکومت نے تشدد کا راستہ کیوں اپنا یا؟ کیوں اسے بلوچستان کی روایات یاد نہیں آئیں؟ کیوں اس نے جمہوریت کی شکل میں آمریت سے کام لیا؟
وفاقی حکومت اور بلوچستان کی صوبائی حکومت نے آن لائن کلاسز کی راہ میں رکاوٹیں دور کرنے کے بجائے نہتے طلبا و طالبات پر لاٹھی چارج، تشدد اور گرفتاریاں کر کے نہ صرف ان پر ظلم کیا بلکہ علم کی تذلیل کی ہے۔ بلوچستان کے طلبہ کے ساتھ پولیس و انتظامیہ کی شرمناک بدسلوکی اور درندگی جمہوری معاشرے کی نفی اور بدترین مثال ہے۔ اس واقعے کی تمام سیاسی جمہوری حلقوں اور ہر ذی شعور انسان نے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے واضح رہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے بلوچستان کے تاریخی شہر قلات سمیت بلوچستان کے سات اضلاع میں موبائل سروس پر انٹر نیٹ بند کردیا گیا ہے،یہاں کی طلباء تنظیموں،سیاسی پارٹیوں اور عوامی نمائندوں کے بارہا مطالبے اور احتجاج کے باوجود بحال نہیں کیا گیا حتیٰ کہ قلات سے تعلق رکھنے والے جمیعت علماء اسلام کے مرکزی سیکٹری جنرل سابق ڈپٹی چیئرمین سینٹ سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری اور نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر سینیٹر میرکبیر احمد محمدشہی نے ملک کے ایوان بالا سینیٹ آف پاکستان میں جبکہ ایم این اے مولانا سید محمود شاہ نے قومی اسمبلی میں قلات میں انٹرنیٹ کی بندش کے خلاف آواز بلند کرکے توجہ مرکوز کرائی اورسینیٹر میرکبیراحمد محمدشہی نے حال ہی میں تحریری درخواست بھی چیئرمین سینٹ کو پیش کی کہ بلوچستان کے تاریخی شہر قلات سمیت سات اضلاع میں عرصہ دراز سے انٹرنیٹ کی سہولت نہیں مگر تاحال کوئی عملدرآمد نہیں ہوا۔
ملک میں کروناوائرس کے باعث جاری لا ک ڈاؤن سے تعلیمی اداروں کی بندش پر ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان نے انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن کلاسز شروع کرنے کا فیصلہ کیا جس پر قلات اور انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کے باعث وہ آن لائن کلاسز سے محروم ہونگے، انکے پاس انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں طلباء کا مطالبہ ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے اس اقدام سے مستفید ہونے کے لئے انٹرنیٹ کی سہولت بحال کی جائے یا پھر انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم علاقوں کے لئے کوئی متبادل فیصلہ کیا جائے تاکہ ان علاقوں کے طلباء و طالبات بھی مستفید ہو کر اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔انٹر نیٹ کی سہولت نہ ہونے پراس سہولت سے محروم لوگ نہ صرف سوشل میڈیا کے استعمال بلکہ مختلف یونیورسٹیز، کالجز اور دیگر تعلیمی اداروں میں داخلے کے لئے انٹرنیٹ کے ذریعے داخلے لینے اور معلومات حاصل کرنے سے بھی محروم ہیں۔آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بلوچستان کے طلباء اور عوام کو انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم رکھنا ان پر تعلیم اور ترقی کے دوازے بند کرنے کے مترادف ہے ان علاقوں کے طلباء وطالبات نہ صرف تعلیم اور معلومات تک رسائی سے محروم ہیں بلکہ وہ ذہنی کوفت اور پریشانی کاشکارہیں۔ بارہا اپیل،مطالبے، احتجاجی مظاہرے، ایوان بالا میں آواز بلند کرنے کے باوجود عملدرآمد نہ ہونا سمجھ سے بالاتر ہے اور خطرناک بھی کیونکہ یہ یہاں کے طلباء اور طالبات کے ہاتھوں سے قلم اور کتاب چھیننے کے مترادف ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکمران وقت اور ہائیر ایجوکیشن بلوچستان کے طلباء وطالبات کو اپنا نہ سہی دشمن کے بچے سمجھ کر پڑھنے کا موقع دینگے بھی یا نہیں؟