ریاست مدینہ مسلمانوں اور کفار دونوں کیلئے رول ماڈل تھا جہاں مسلمان عقیدتاً اور کفار یقین اور سچائی کی بنیاد پر ہی اس کو تسلیم کرتے تھے جہاں تمام طبقات مسلم اور نان مسلم کیلئے یکساں نظام و قانون تھا کسی نواب،سردار، چوہدری، ملک،ٹکری، سید کو عام عوام پر فضیلت یا فوقیت حاصل نہ تھی جہاں کے قاضی کی معمولی طلبی پر امیر المومنین عدالت میں حاضر ہوتے تھے جہاں عصر حاضر کے امیر کا رعب ودبدبہ سے قاضی ہرگز متاثر نہیں ہوتا تھا اور قاضی کے فیصلے ہر عام وخاص تسلیم کرکے عدل و انصاف کے تقاضوں پر پورے اترتے تھے۔ اسی وجہ سے ہی ریاست مدینہ میں نہ تو کرپشن مافیاز تھے نہ ہی ظلم وزیادتی، چوری، ڈاکہ زنی سمیت دیگر برائیاں عام تھیں تاہم اگر کوئی واقعہ سرزد ہوتا تو موقع پر ہی سزا و جزا کا فیصلہ صادر کیا جاتا تھا، کسی کے حسب نصب یا عہدے اور رعب ودبدبہ کو ہرگز خاطر میں لا کر اس کی سزا معاف یا کم نہیں کیا جا سکتا تھا اسی وجہ سے ریاست مدینہ جیسے وسیع سلطنت میں نہ تو ناانصافی کا تصور تھا اور نہ ہی کسی کی حق تلفی کرنے کی کوئی بھی جسارت کر سکتا تھا۔ حقیقی ریاست مدینہ میں ظلم، نا انصافی،عدم مساوات،عدم برداشت، کرپشن،اقربا پروری، جھوٹے ایف آئی آر کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا لیکن پاکستان میں عمران خان کے ریاست مدینہ میں جہاں کرپشن جھوٹ ناانصافی حق تلفی عدم مساوات اور لوگوں کے ساتھ ظلم و زیادتی اسٹیس کو قانون کے دہرا معیار غریب کیلئے الگ قانون اور امیر کیلئے الگ قانون، بااثر چور فرشتے جبکہ مرغی چور ملکی بقاء کیلئے خطرہ، ملک میں ناانصافی کی بھرمار اور عوام کے معیار زندگی اور جدید ترقی کے سہولیات سے محرومی موجودہ ریاست مدینہ کی ترجیحات ہوں وہاں ریاست برابری مساوات فوری انصاف قانون سب کیلئے اور سزا وجزا کے معیارات پر فرق کرنے والے حکمران یقینا عوام اور ملک کے ساتھ عظیم دھوکہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں اس طرح کی روایات عام ہیں ایوب خان نے ترقی اور خوش حالی کا پْرفریب نعرہ دیکر،بھٹو نے سوشلزم، سوشل انقلاب اور عوام کو ہی حق حاکمیت کا نعرہ دیکر، جنرل ضیاء الحق نے ملک کو اسلامی طرز پر چلانے اسلامی قوانین کے نفاذ اور شریعت کی نفاذ کے نعرے پر گیارہ سال ملک پر حکمرانی کی جبکہ جنرل مشرف نے سب سے پہلے پاکستان،روشن خیالی،ماڈرن اسلام،دہشت گردی اور طالبان ازم یا ملائیت کے خلاف پاکستان کے عوام پر دس سال سے زائد حکمرانی کی، جہاں ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی۔اس کے بعد اب موجودہ حکمران عمران خان ایک بار پھر عوام کو ریاست مدینہ کے نام پر بیوقوف بنانے میں مصروف ہے تاہم وہ خود ریاست کے عملی نمونہ نہ ہونے کے باوجود ریاست مدینہ طرز کا پر فریب نعرہ دیکر یقینا ریاست مدینہ جیسی عظیم ریاست کے مثالی قوانین کا مذاق اْڑا رہے ہیں۔ کیا موجودہ ریاست مدینہ کے حکمران ٹولے میں تمام کے تمام وزیر مشیر عوام کے اعتماد پر پورا اترتے ہیں؟ کیا ان پر میگا کرپشن کے کوئی الزامات نہیں؟ کیا ملک میں آٹے کا بحران، شوگر بحران، بجلی و توانائی بنانے والی کمپینوں کے نام پر قومی خزانہ پر ڈاکے نہیں پڑے؟ کیا ادویات مہنگی کرکے عوام کو علاج و معالجہ کی سہولیات سے محروم نہیں رکھا جا رہا؟ کیا ملک میں کرپشن اقربا پروری اور مبینہ بڑے بڑے اسکینڈل میں ملوث لوگ وزراء اور مافیاز ملک کے اہم مناصب پر فائز نہیں؟ کیا حقیقی ریاست مدینہ میں کوئی قاضی گورنر، امیر المومینین پر کرپشن چارجز کے باوجود انہیں عہدے دیئے جانے کی کوئی ایسی مثالیں موجود ہیں یا کسی قاتل کے ساتھ رعایت کرنے کی کوئی مثالیں تاریِخ کا حصہ ہیں؟ بیت المال پر ڈاکے ڈالنے کا کوئی واقعہ یاچوروں کو بیت المال کا سربراہ بنانے یا چوری،کرپشن ثابت ہونے پر تنزلی کے بجائے اہم وزارتوں پر دوبارہ فائز کیا جاتا تھا- یا پھر موجودہ حکمران عوام کو اسلامی ریاست مدینہ کے نام پر بے وقوف بناکر اور قومی خزانے لوٹنے جیسے واقعات کرنے والے ہی ریاست مدینہ کے جھوٹے نعروں سے ہی واقعی ریاست مدینہ طرز حکمرانی کے اصول پر کاربند رہ سکتے ہیں جس ریاست میں شراب پانی کی طرح پیا جاتا ہو، جہاں انصاف امیروں اور طاقتورکے اشاروں پر ہوتا ہو یا بکتا رہا ہو،جہاں عدالتوں میں جھوٹ بولا جاتا ہو، جہاں غریب پر قانون کی رٹ چلتا ہو اور طاقتور کے سامنے بے بس ہو، جہاں سزا و جزا کا تصور ہی نہ ہو، جہاں اپنا چور فرشتہ اور مخالف چور ظالم نظر آتا ہو، جہاں دوہرے انصاف کے تقاضے ہوں، جہاں ظالم کو ظالم کہنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہو، جہاں مظلوم کی حمایت آ بیل مجھے مارنے کے برابر ہو، کیا وہاں انصاف کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں، کیا وہ ریاست مدینہ کے اصولوں کے عین مطابق حکمرانی ہو سکتی ہے جہاں کے وزیر پانچ سال بعد ان کے بینک بیلنس میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہو جہاں کے وزرا ء کے بیرون ملک جائیدادیں بزنس بینک اکاونٹس اور پراپرٹیز ہوں لیکن صرف اور صرف ملک کے عوام اور مڈل کلاس طبقہ بدحال ہوں، عوام ترقیاتی ثمرات سے یکسر محروم ہوں، جدید سہولیات علاج معالجہ،تعلیم روزگار کے مواقع سے محرومی عوام کا مقدار ہو لیکن اس کے باوجود ریاست مدینہ کے نام پر حکمرانی کے دعوے کئے جارہے ہوں جہاں ملک میں کورونا وائرس کے نام پر مساجد، مدارس اور تعلیمی ادارے بند کئے گئے ہوں،پورے ملک میں مساجد چندے پر بنائے جاتے ہوں لیکن وہاں گردوارے اور مندر عوام کے خون نچوڑنے والے حکمران قومی خزانے سے ہی بناتے ہوں، کیا کسی گرداورے مندر کلیسا بنانے کی کوئی مثال حقیقی ریاست مدینہ کی تاریخ کا حصہ رہا ہے، کیا ریاست مدینہ میں بیت المال ہی سے اقلیتوں کیلئے مندربنانے جیسے اقدامات کئے جاتے تھے؟ دراصل یہ سب حقیقی ریاست مدینہ کے اصولوں سے متصادم ہیں عوام کو جدید ترقی روشن خیالی کے نام پر بیوقوف بنایا جا سکتا ہے لیکن اس طرح کرکے ریاست مدینہ طرز حکمرانی کو مذاق بنا کر حکمران عذاب الٰہی کودعوت دے رہے ہیں مسلمانوں اور اسلامی ممالک پر واجب ہے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کو یقینی بنائیں انہیں اپنی عبادات کرنے کا موقع فراہم کرے ان پر کوئی پابندی نہ ہو، عمران خان کی سلیکشن کرنے اور ان کو وزارت عظمیٰ کے مسند پر فائز ہونے پر یقینا عوام نے خوشی کا اظہار کیاتھا اور اس توقع پر شاید سونامی خان ملک میں حقیقی تبدیلی لائے عوام کو کرپٹ حکمرانوں سے نجات دلائے لیکن یہ خواب اس وقت چکنا چور ہو گئے جب اس کے کابینہ میں وہی سابق حکمرانوں کے چور وزیر جن پر عمران خان کی نظر کرم پڑنے کے باعث فرشتے بن کر دوبارہ وزارت کے منصب پر فائز ہو کر پاکستانی عوام کو بہترین گورننس سے بہرہ مند کرنے میں مصروف ہو گئے، وہیں عمران خان سو روزہ پلان میں ملک میں واضح تبدیلی کا عندیہ دیا جہاں اب دوسال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود نہ تو ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہوا نہ طاقتور مافیاز قانون کی گرفت میں آئے نہ ہی آٹا چور اور نہ ہی شوگر مافیاز گرفتار ہوئے نہ ہی ادویات مہنگی کرنے ماسک چوری کرنے کورونا وائرس کے نام پر ملکی خزانے صاف کرنے والوں کو بے نقاب کیا گیا اور نہ ہی ریاست مدینہ کے قوانین کے تحت چور کی سزا یعنی ہاتھ کاٹنے کا کوئی کیس ہوا۔ آپ بلوچستان کے عوام کی بدحالی کا اندازہ لگائیں کہ 1972 سے اب تک صوبے کا نظام تعلیم وہ نتائج نہیں دے رہا جو کہ دیگر صوبے تعلیمی میدان میں کامیابی کی منازل طے کیے ہیں صوبے میں تعلیمی نظام تباہ حالی اور غلط اور جھوٹے اعداوشمار پر ہی چلایا جا رہا ہے، معیاری ادارے قائم کرنے کے باوجود معیاری اور حاضر باش اساتذہ کا مسئلہ ہنوز حل طلب ہے۔ صحت عامہ کی سہولیات کا اندزہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پورے صوبے میں ایک بھی مثالی ہسپتال تک نہیں جس طرح بلوچستان کے لوگوں کو سندھ پنجاب علاج کیلئے ریفر کیا جاتا ہے کبھی بھی اس طرح کسی مریض کو بھول کر بھی ہمارے ہسپتالوں میں ریفر نہیں کیا جاتا اور نہ ہی کوئی خوشی سے ہمارے ہسپتالوں میں علاج کرانے کا سوچ سکتا ہے۔ ہسپتالوں میں نہ تو بہتر علاج ہوتا ہے اور نہ ہی مفت ادویات فراہم کی جاتی ہیں پورے صوبے میں صاف پینے کے پانی کیلئے آج بھی لوگ بیس تیس کلومیٹر سفر کرکے پانی لانے پر مجبور ہیں لوگ جوہڑوں تالابوں کا پانی پی کر خطرناک بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ بلوچستان کی شاہراہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جن کی بدولت پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ٹریفک حادثات بلوچستان کے ان قاتل شاہراہوں پر ہوتی ہیں وفاق نے صوبے کی ترقی پر نہ تو کبھی توجہ دینے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی بلوچستان کے صوبائی حکومت کی ترجیحات صوبے اور عوام کی ترقی و خوشحالی ہے۔ صوبے کی اراکین اسمبلی کی ترجیحات اگر صوبے کے عوام ہوتے تو آج بہتر سالوں سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود صوبے کے عوام ترقی کے ثمرات سے محروم نہ ہوتے لیکن افسوس صوبے کے ایک کروڑ تیس لاکھ عوام بدحالی مفلوک الحال عدم ترقی جدید سہولیات سے محروم ہیں لیکن صوبے پر حکمرانی کرکے والے ان 65 اراکین اسمبلی مقدر کے سکندر بنتے جا رہے ہیں،وہ روز بروز امیر سے امیر تر اور عوام غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں،کیا کوئی ایسا ادارہ نہیں جو ان اراکین اسمبلی کی ترقیاتی منصوبوں پر نظر رکھے ان کے منصوبوں کا آڈٹ کرے اور ساتھ ہی عوام کی بدحالی اور ان 65 اراکین کی خوشحالی کا بھی جائزہ لے اور عوام کو بھی آگاہ کیا جائے کہ ان کے پاس کون سا الہ دین کا چراغ ہے جو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں ان سیاسی زعماء کے قسمت بدلنے کے باوجود عوام پسماندگی محرومیوں کا شکار ہیں کیا نیب اینٹی کرپشن ایف آئی اے یا دوسرے ادارے ان بلوچستانیوں کے خون نچوڑنے والوں سے لاعلم ہیں یا پھر علم ہونے کے باوجود ان کو کچھ نہیں کہا جا رہا۔ اب وقت آگیا ہے کہ بلوچستان کے ایک کروڑ تیس لاکھ عوام کو پسماندگی،محرومی کا شکار کرنے والے صوبے کے ان 65 اراکین اسمبلی اور ان کی سرپرستی کرنے والوں کا احتساب کیا جائے اور مسلسل یہی 65 اراکین اسمبلی جوکہ ان کے دادا، والد،بیٹا،نواسہ تک منتخب ہوتے آ رہے ہیں ان کے الیکشن یا سلیکشن کا ذمہ داروں سے بھی پوچھ کچھ ہونا چاہئے اور سب سے زیادہ ترقیاتی فنڈز جو سالانہ کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں کا آڈٹ ہونا چاہئے تاکہ بلوچستان میں ترقی کے نہ ختم ہونے والے سفر کا آغاز ہو بصورت دیگر یہی سیاسی زعماء حسب سابق ہماری ترقی کے نام پر عوام کو پسماندگی،محرومی جہالت کے دلدل میں ہی دھنساتے رہیں گے اور ہم عوام صرف افسوس کرنے کے سوا کچھ بھی نہ کر سکیں گے۔بلوچستان کی ترقی اور محرومیوں کے خاتمے کیلئے سیاسی اکابرین بیورو کریسی سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ بلوچستان میں حقیقی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے-
ریاست مدینہ اور ہمارے حکمرانوں کا قول وفعل
وقتِ اشاعت : July 4 – 2020