|

وقتِ اشاعت :   July 8 – 2020

پِگھلنا علم کی خاطر مثالِ شمعِ زیبا ہے!!!!
بغیر اس کے نہیں ہم جان سکتے کہ خدا کیا ہے!!!!
معاشی اور تعلیمی اعتبار سے معاشرتی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں بسنے والے افراد مروجہ علوم اور زمانے کے تقاضوں سے آگاہ ہوں،عوام کی علمی سطح بلند،ہر طرف تعلیم کاچرچاہو۔تعلیمی اداروں میں کتب خانے اور لائبریریاں موجود ہوں۔

علم کے حصول کاسب سے بڑا ذریعہ ہمارے مدارس،مکاتب،اسکول،کالج اور یونیورسٹیاں ہیں۔عوام کی رسائی ان تعلیم گاہوں تک بالعموم نہیں ہو پاتی،اس لیے ملک کے مختلف حصوں میں فلاحی تنظیموں کے ذریعے لائبریری کے قیام کا اہتمام کیاجائے،علم کا فروغ محض تعلیمی اداروں سے ہی ممکن نہیں،تعلیمی ترقی اور علم کے فروغ کا ایک مضبوط ذریعہ لائبریری ہے۔

آج لائبریری کے قیام و استحکام پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔کیوں کہ تعلیم کو عام کرنے کاجو راستہ تعلیمی اداروں سے نکلتاہے،وہ کتب خانوں میں آکرمل جاتا ہے اوران دونوں کے باہمی تعاون سے ہی ملک اور معاشرے میں علم کااجالا پھیلتاہے،لائبریریاں،علوم و فنون اور معلومات کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں۔علم کے متوالوں کو یہاں ہر قسم کا علم بغیر کسی پابندی اور رکاوٹ کے مل جاتا ہے اور ہر شخص آسانی سے بقدر ظرف استفادہ ر سکتا ہے۔دنیا کی کوئی بھی ترقی یافتہ قوم لائبریری سے بے نیاز نہیں رہ سکتی،لائبریری کی اہمیت و افادیت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا خاص طور سے تعلیمی و تدریسی زندگی میں تو لائبریری کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے اس کے بغیر تعلیمی سفر کومنزل سے ہم کنارنہیں کیاجاسکتا۔

درسی کتابیں چاہے کتنی ہی معیاری اور مفید ہوں، بچوں کی معلومات میں وسعت، ذخیرہ الفاظ میں اضافہ، مطالعہ کی سکت، کتب بینی کا ذوق، خیالات کی بلندی، آدرش کی لگن، اظہار خیال پر قدرت، دوسروں کے خیالات و نظریات سمجھنے کی صلاحیت اور فرصت کے اوقات کے مناسب استعمال کے لیے مزید موزوں کتب اور اخبارات و رسائل وغیرہ کا مطالعہ ضروری ہے۔ خود اساتذہ کو بھی اپنی تدریسی صلاحیت بڑھانے، اپنی معلومات کو اپ ڈیٹ رکھنے، توضیح و تشریح میں مدد لینے اور حوالہ جات کے لیے کتب و رسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔

ظاہر ہے طلبہ اور اساتذہ کی ان ضروریات کی تکمیل کے لیے ہر مدرسے کی اپنی ” لائبریری ” ہونی چاہیے۔ لائبریری میں اساتذہ اور ہر عمر، ذوق اور صلاحیت کے بچوں کے لیے مفید اور ضروری کتب کا ذخیرہ ہونا چاہیے، جس میں سال بہ سال اپنی بساط کے مطابق نئی کتب کا اضافہ بھی ہوتا رہے، بچوں اور بڑوں کی دلچسپی کے لیے اچھے اخبارات ورسائل رکھ دی جائیں اگر وسائل محدود ہوں تو کتب و رسائل کی فراہمی میں پبلک سے تعاون بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جو صاحب ذوق اخبارات و رسائل منگواتے ہیں یا کتابیں خریدتے ہیں۔

ان سے یہ چیزیں لائبریری کے لیے عاریتاً لی جاسکتی ہیں یا ان میں سے جو چیزیں پڑھنے کے بعد عموماً بے کار ہوجاتی ہیں اور وہ ادھر ادھر ڈال دیتے ہیں انہیں لائبریری کیلئے مستقلاً حاصل کریں۔ بعض گھروں میں پرانی کتب کا ذخیرہ پڑا پڑا دیمکوں کی نذر ہو جاتا ہے یا بچوں کی پڑھی ہوئی کتابیں ادھر ادھر بکھری پڑی رہتی ہیں تو مفت میں یا کم داموں پر انہیں لائبریری کے لیے حاصل کرسکتے ہیں۔جس طرح پاور پلانٹ اور بجلی ہاؤس سے ہرطرف بجلی سپلائی کی جاتی ہے، اسی طرح لائبریری “علم کا پاور ہاؤس ہے۔

جہاں سے معاشرے کو علم کی روشنی فراہم ہوتی ہے اور مختلف علوم و فنون کی شعاعیں لوگوں کے ذہن و دماغ میں منتقل ہوتی ہیں۔ انسانی تہذیب کے ارتقاء کی تاریخ کتاب اور لائبریری کے ذکرکے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔بلوچستان کے ضلع سوراب میں بلوچ اسٹوڈنٹس الائنس کے دوستوں (بالخصوص لطیف بلوچ،قدیربلوچ،وحیدبلوچ،یاسین بلوچ، قدیرسلام بلوچ، عبدالغنی بلوچ اور دیگردوستوں جس میں راقم الحروف بھی شامل ہیں) نے اپنی مدد آپ کے تحت سوراب اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں رہنے والے طلباء و طالبات کیلئے ایک لائبریری کا قیام عمل میں لایا ہے جس سے طلباء و طالبات مستفید ہورہے ہیں۔ اسی طرح قوم و ملت کے ذمہ دار حضرات کو چاہیے کہ سماجی فلاح و بہبود سے متعلق وہ اپنے ترقیاتی منصوبوں میں (جہاں ضرورت ہو وہاں) لائبریریوں کے قیام کو بھی شامل کریں اور ہماری وہ قدیم لائبریریاں جو آج دیمک کی نذر ہو رہی ہیں،ان کی حفاظت کاانتظام کریں۔