بلوچستان جغرافیہ کے لحاظ پاکستان کا سب بڑا صوبہ ہے جو کہ ملک کے کل رقبے کا 44 فیصد بنتا ہے جبکہ اس کی آبادی دیگر تمام صوبوں سے کم ہے۔ دو ہزار سترہ میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق اس وقت بلوچستان کی کل آبادی ایک کروڑ بیس سے زائد ہے۔ چین کے شہر ووہان سے پھوٹنے والی وباء ہمارے ہمسایہ ملک ایران میں داخل ہوئی تو بلوچستان میں کورونا وائرس کا پہلا مریض سندھ کے شہر دادو کا رہائشی ایک بارہ سالہ بچہ تھا جو کہ فیملی کے ہمراہ ایران سے سفر کر کے بلوچستان میں داخل ہوا۔
ڈائریکٹریٹ کورونا وائرس سیل بلوچستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں گزشتہ روز تک سکریننگ کئے گئے لوگوں کی کل تعداد109464 جبکہ کورونا و ائرس مثبت رزلٹ کی مریضوں کی کل تعداد 1084 اب تک کورونا کے کیے گئے مجموعی ٹیسٹ کی کل تعداد 51204 اورکورونا وائرس سے صحت یاب مریضوں کی کل تعداد 6131 جبکہ کورونا وائرس سے جان بحق مریضوں کی تعداد 124 ہے۔اس وقت صوبے میں کوئٹہ کے بعد کورونا سے سب سے زیادہ متاثرہ ضلع جعفر آباد ہے جہاں کورونا کے مریضوں کی تعداد 323 بتائی جاتی ہے جہاں بلوچستان کا شمار پسماندہ صوبوں میں کیا جاتا ہے وہی جعفر آباد بھی صوبے کا پسماندہ ضلع ہے۔جب سے کورونا کی وباء پھوٹی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ صوبائی حکومت کی جانب سے بہت دیر سے اقدامات اٹھائے گئے اور وفاق اور صوبوں میں ہم آہنگی کا فقدان دیکھنے کو ملا جسکی وجہ سے وبا پر قابو پانا مشکل تر ہوتا چلا گیا۔
غریب افراد کی مدد کے لئے وفاقی حکومت کی جانب سے احساس ایمرجنسی کیش کا آغاز تو کیا گیا لیکن اس میں بھی بہت سارے مستحق افراد محروم رہے اور بد انتظامی سامنے آئی، اسکے بعد ایمرجنسی کیش پروگرام دوبارہ فعال کردار ادا نہ کر سکا۔اکثر نقاد یہ کہتے ہیں کہ بارہ ہزار روپے کی رقم سے کچھ نہ کچھ فائدہ تو ہو سکتا ہے لیکن اس رقم سے گھر کو چلانا نہ ممکن سی بات لگتی ہے۔یہ وباء حکومتوں کے لئے ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر سامنے آیا، انہیں چاہئے کہ از سر نو ملک میں غربت کا سروے کیا جائے تاکہ حق حقدار تک پہنچ سکے۔
یاد رہے کہ معزور افراد جو کہ اکثر محنت مزدوری نہیں کر سکتے ان کے اوپر خصوصی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ان کے لئے مشکلات اور بھی زیادہ ہیں اور ان وباء کے دونوں میں معزور افراد کی مشکلات اور بھی بڑھ گئی ہیں۔پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جہاں اقلیتوں کو حقوق تو حاصل ہیں لیکن یہ اقلیتیں اکثر متوسط طبقہ سے تعلق رکھتی ہیں جنہیں اس وباء کے دنوں میں کافی مشکلات کا سامنا رہا ہے اور ان کے لئے کوئی خصوصی پیکج نہیں رکھا گیا ان پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ضلع جعفر آباد اس وقت پوائنٹ ٹیبل پر کورونا سے متاثرہ اضلاع میں دوسرے نمبر پر ہے۔
جہاں حکومت کی جانب سے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے اس کے مقابلے میں غیر سرکاری تنظیمیں کورونا وائرس کے خلاف اپنا اہم کردار ادا کررہی ہیں۔شیڈ بلوچستان نے آواز فاونڈیشن پاکستان کے تعاون سے جعفرآباد میں کرونا سے متعلق لوگوں کے لئے آگاہی مہم کا آغاز کیا اور وقتاً فوقتاً مقامی افراد کو وبا سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر بتائیں اور ریسرچ سروے بھی کیا گیا، اس وقت حکومت کو چاہئے کہ وہ ان تنظیموں کے ساتھ بہترین ہم آہنگی پیدا کرے تاکہ اس وائرس پر قابو پانے میں آسانی ہو۔
کوئی بھی معاشرہ خواتین کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کو بااختیار بنایا جائے اور انہیں معاشرے میں برابر کے حقوق فراہم کر کے باوقار شہری تصور کیا جائے،اس ضمن میں غیر سرکاری تنظیم شیڈ بلوچستان خواتین کی تعلیم، صحت کی بہتر سہولیات اور روزگار کی فراہمی کو یقینی بناتے ہوئے وویمن اپماورمنٹ پر کام کررہی ہے۔حکومت کو چاہئے کہ وہ اقلیتوں، معزور افراد اور خواتین پر خصوصی توجہ کے ساتھ ساتھ ضلع جعفر آباد اور اسی طرح کے دیگر پسماندہ ترین اضلاع میں بہترین وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنا کردار ادا کرے تاکہ کورونا وائر س کو جتنی جلدی ممکن ہو،شکست دی جا سکے غیر سرکاری تنظیموں کا ماڈل ہمارے سامنے ہے۔